ہونے والا علم یقینی نہیں بلکہ اس میں غلطیوں کے امکانات ہوتے ہیں ، جبکہ وحی یعنی قرآن وحدیث کا علم یقینی ہے۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ علوم قرآن وسنت سب سے اعلیٰ علم ہیں ، لیکن ہمیں حواس خمسہ اور عقل کے ذریعہ بھی علم حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں تعلیم کے ہر میدان میں اپنا پرچم بلند رکھا ہے، اس کے ہر گوشے کو اپنی ناقابل فراموش خدمات سے منور کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے قرآن وحدیث کی تعلیم کو بھی ترک کر دیا اور حواس خمسہ وعقل کے ذریعہ حاصل ہونے والے علوم میں بھی بہت پیچھے رہ گئے ، چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کریں جس کے لیے ہمیں اپنا رشتہ قرآن وحدیث سے مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر دیگر علوم میں بھی سبقت حاصل کرنی ہوگی۔
مدارس کا قیام:
آئیے سب سے پہلے ان مساجد ومدارس، دینی اداروں وخانقاہوں وتربیت گاہوں اور قضاء وفتویٰ کی خدمات کرنے والے اداروں کی بات کرتے ہیں جو اپنی دینی خدمات میں مصروف ہیں اور ملت اسلامیہ کی رہبری ورہنمائی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔مدارس کے قیام کی ابتداء چوتھی صدی ہجری کے آخر سے منسوب کی جاتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس