دُعا کی اہمیت:
دعا کی اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ، اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ، فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِیْ وَلْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶) (اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ غرضیکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بندوں کوحکم دیتے ہوئے فرمایا: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المؤمن: ۶۰) تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
حضور اکرم ﷺنے بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: لَیْسَ شَیْئٌ اَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَائِ (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء) اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔