السبحۃ بین المجیزین والمانعین) ہے، جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ امت مسلمہ خاص کر چاروں ائمہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں تسبیح پر ذکر کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔
خلاصۂ کلام: مذکورہ احادیث صحیحہ وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کی روشنی میں ذکر الہی کے لئے صرف داہنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ یا تسبیح وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں برصغیر کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھ یا تسبیح کے ذریعہ ذکر کرتا ہے تو کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اِس عمل کو بدعت کہے یا اُس شخص کو اُس کے عمل سے روکنے کی کوشش کرے، کیونکہ نبی اکرمﷺنے کنکری یا گٹھلی وغیرہ پر صحابہ کرام یا صحابیات کو ذکر کرنے سے کبھی نہیں روکا، اسی طرح نبی اکرم ﷺیا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی سے بائیں ہاتھ پر ذکر کرنے سے کوئی انکار حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملتا، تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ہم کسی شخص کو بائیں ہاتھ پر یا تسبیح پر ذکر کرنے سے روکیں۔ اگر ذکر کرنے کے لئے صرف دائیں ہاتھ پر ہی اکتفاء ضروری ہے تو قرآن کریم کو چھونے، اس کی طباعت اور جلدسازی کے لئے، اسی طرح بیت اللہ کا غلاف تیار کرنے اور اس کو بیت اللہ پر چڑھانے ، نیز مسجد کی تعمیر اور جانماز وغیرہ کو تیار کرنے میں صرف داہنے ہاتھ کے استعمال پر ہی اکتفاء کرنا ہوگا، اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، لہٰذا ہم دونوں ہاتھ، اسی طرح تسبیح پر بھی ذکر کرسکتے ہیں۔