جس کا کوئی کنارہ نہیں اور انسان کو ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہیے خواہ وہ علم کی بلندیوں پر پہنچ جائے، وہیں یہ رہنمائی بھی ملی کہ قرآن وحدیث اور ان دونوں سے ماخوذ علم ہی اصل علم ہے ۔
علم کی اہمیت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے علمائے کرام کے متعلق یہ اعلان فرمادیا: ’’إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ‘‘ (سورۃالفاطر:۲۸ ) اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ ابتداء اسلام سے اب تک جتنی بھی مشہور ومعروف تفسیریں تحریر کی گئی ہیں ان میں تحریر ہے کہ اس مذکورہ آیت میں علماء سے مراد وہ علماء ہیں جو اللہ کے کلام کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، اللہ کی ذات وصفات کا علم رکھتے ہیں ، اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کرکے اللہ جل جلالہ کی عظمت ، کبریائی وبڑائی کا اعتراف کرتے ہیں اور ذات باری سے خوف وخشیت رکھتے ہیں۔معلوم ہوا کہ اسی علم سے دونوں جہاں میں بلند واعلیٰ مقام ملے گا جس کے ذریعہ اللہ کا خوف پیدا ہواور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت قرآن وحدیث اور ان دونوں علوم سے ماخوذ علم سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
جس طرح باری تعالیٰ نے علم اورعلماء کی خاص فضیلت اپنے پاک کلام میں ذکر فرمائی ہے، رحمۃ للعالمین حضور اکرم ﷺنے بھی علم کی خاص اہمیت وفضیلت کو بار بار ذکر فرمایا ہے، میں صرف ایک حدیث پیش کر رہا ہوں : رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ جو شخص طلب علم کی راہ میں چلتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جو لوگ جب کبھی کسی خانۂ خدا میں جمع ہوکر کتاب اللہ کی تلاوت کریں اور اس کے درس وتدریس میں مشغول ہوں تو ان پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ