اپنے پاس والوں میں ان کا ذکر کرتا ہے۔ (صحیح مسلم) حضور اکرم ﷺنے اپنے اس مختصر مگر جامع کلام میں فرمایا کہ علم اسی وقت قابل قدر وباعث رحمت ہوگا جب کہ وہ جاننے والے کو جنت تک پہنچانے والا ہو۔ اس کے بعد قرآنی حلقوں کا ذکر فرماکر حضور اکرم ﷺنے واضح طور پر فرمادیا کہ اصل علم وہ ہے جو قرآنی تعلیمات پر مشتمل ہو۔
خواتین وحضرات!
انسان تین ذرائع میں سے کسی ایک ذریعہ سے علم حاصل کرتا ہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ ، کان ، منہ اور ہاتھ پائوں، دوسرا ذریعہ عقل اور تیسرا ذریعہ وحی ہے۔ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ، جب کہ بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعہ عطا ہوتا ہے۔ حواس اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان ہوتے ہیں، لیکن وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان بالکل نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ علم خالق کائنات کی جانب سے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو پہنچتا ہے۔ غرض وحی الٰہی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق ان سوالات کے جواب مہیا کرتا ہے جو عقل وحواس کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتے ، یعنی صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے ، بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الٰہی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ چوں کہ وحی عقل اور مشاہدے سے بڑھ کر علم ہے ، لہٰذا ضروری نہیں کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہوسکے۔ اسلام نے پہلے دونوں ذرائع سے حاصل ہونے والے علم کے حصول سے منع نہیں کیا ہے بلکہ ان علوم کو بھی حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، مگر ان دونوں ذرائع سے حاصل