دونوں سے ماخوذ علوم میں ہی تقدیر پر ایمان لانے کی تعلیمات ملتی ہیں۔
سورۃ الزمر آیت نمبر (۹) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ کیا اہل علم اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ مذکورہ آیت کے ابتدائی حصہ اور اس سے قبل آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ کیا کافر شخص اس مؤمن کے برابر ہوسکتا ہے جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے اور آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی وفانی زندگی گزارتا ہے۔ اس کے بعد آنے والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّکُمْ‘‘ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرو۔ معلوم ہوا کہ جاننے والے کی نہ جاننے والے پر فضیلت اس وقت ہوگی جب کہ جاننے والا اللہ کو مان کر زندگی گزارنے والا بنے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَات‘‘ (سورۃ المجادلۃ: ۱۱)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجوں کو بلند کرے گا ۔ معلوم ہوا کہ علم اسی صورت میں باعث ِ عزت ورفعت ہے جب کہ جاننے والا ایمان کی عظیم دولت سے مالامال ہو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ قَبْلَ أن یُقْضٰی إلَیْکَ وَحْیُہُ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً‘‘ (سورۃ طہٰ: ۱۱۴) اے پیغمبر! جب قرآن وحی کے ذریعہ نازل ہو رہا ہو تو اس کے مکمل ہونے سے پہلے جلدی نہ کیا کرو اور یہ دعا کرتے رہا کرو کہ ’’اے میرے پروردگار! میرے علم میں ترقی عطا فرما‘‘۔ اس آیت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ علم ایک ایسا سمندر ہے