(١٦٩٧) والقدیمة والجدیدة سواء ) ١ لاطلاق ماروینا ٢ ولان القسم من حقوق النکاح ولاتفاوت بینہن فی ذلک ٣ والاختیار فی مقدار الدور الی الزوج لان المستحق ہو التسوےة دون طریقہا ٤ والتسوےة فی البیتوتة لا فی المجامعة لانہا تبتنی علی النشاط
٢١٣٤ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی التسویة بین الضرائر، ص ٢١٦ ،نمبر١١٤٠)ا س حدیث میں بغیر کسی تفریق کے باکرہ ثیبہ سب کو برابر باری دی ہے اس لئے سب کے لئے برابر باری ہو گی ۔
فائدہ: بعض ائمہ کی رائے ہے کہ شادی کرکے لایا ہو تو پہلے باکرہ کو سات دن دے اور ثیبہ ہو تو تین دن دے۔پھر سب کے درمیان باری تقیم کرے۔
وجہ: (١) ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن انس ولو شئت ان اقول قال النبی ۖ ولکن قال السنة اذا تزوج البکر اقام عندھا سبعا واذا تزوج الثیب اقام عندھا ثلاثا۔ (بخاری شریف ، باب اذا تزوج البکر علی الثیب ص ٧٨٥ نمبر ٥٢١٣ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی القسمة للبکر والثیب ص ٢١٦ نمبر ١١٣٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باکرہ کو شادی کرکے لائے تو پہلے اس کو سات دن ملیںگے۔اور ثیبہ کو شادی کرکے لا ئے تو اس کو تین دن ملیں گے۔پھر سب کے لئے باری مقرر ہوگی۔
ترجمہ : (١٦٩٧) اور پرانی اور نئی برابر ہیں ۔
ترجمہ : ١ اس حدیث کے مطلق ہو نے کی وجہ سے جو ہم نے روایت کی ۔
تشریح : کوئی بیوی ابھی شادی کر کے آئی ہو اس کے لئے پہلے تین دن یا سات نہیں ملے گا ، بلکہ سب کے لئے برابر باری ہو گی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر والی حدیث میں باری میں کوئی فرق بیان نہیں کیا ، وہ حدیث مطلق ہے ۔
ترجمہ : ٢ اور اس لئے کہ باری باندھنا نکاح کے حقوق میں ہے اور نکاح کے بارے میں ان عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے (اس لئے سب کی باری برابر ہو گی )
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے کہ باری باندھنا یہ نکاح کے حقوق میں سے ہے اور نکاح کے اعتبار سے سب بیویاں برابر ہیں اس لئے سب کے لئے برابر باری ہو گی ۔
ترجمہ : ٣ اور دور کی مقدار میں اختیار شوہر کو ہے اس لئے کہ مستحق وہ برابری ہے ، اس کا طریقہ نہیں ہے ۔
تشریح : ایک ساتھ ایک ایک دن کی باری رکھے گا یا دو دو دن کی باری رکھے گا اس کا اختیار شوہر کو ہے ، کیونکہ عورت کا حق صرف اتنا ہے کہ سبکو برابر دن دے ، لیکن کتنے دنوں کا دور بنائے اس کا حق عورت کو نہیں ہے ۔
ترجمہ : ٤ رات گزارنے میں برابری کرے وطی میں برابری ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اس کا مدار نشاط پر ہے ۔