کو زمین کی اجرت اس جگہ کے دستور کے موافق دینی ہوگی ان زائد ایام کے عوض میں۔
مسئلہ:- بعض جگہ دستور ہے کہ بٹائی کی زمین میں جو غلّہ پیدا ہوتا ہے اس کو حسبِ معاہدہ باہم تقسیم کر لیتے ہیں، اور اجناس چری وغیرہ پیدا ہوتی ہے اس کو تقسیم نہیں کرتے بلکہ بیگھوں کے حساب سے کاشتکار سے نقد لگان وصول کرتے ہیں۔ سو ظاہراً بوجہ اس کے کہ یہ شرط خلافِ مزارعت ہے ناجائز معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس تأویل سے کہ اس قسم کے اجناس کو پہلے ہی سے خارج از مزارعت کہا جاوے اور باعتبار عرف کے معاملۂ سابقہ میں یوں تفصیل کی جاوے کہ دونوں کی مراد یہ تھی کہ فلاں اجناس میں عقدِ مزارعت کرتے ہیں اور فلاں اجناس میں زمین بطورِ اجارہ دی جاتی ہے، تو اس طرح جائز ہوسکتا ہے، مگر اس میں جانبین کی رضامندی شرط ہے۔
مسئلہ:- بعض لوگ اس کا تصفیہ نہیں کرے کہ کیا بویا جاوے گا؟ پھر بعد میں تکرارِ قضیہ ہوتا ہے، یہ جائز نہیں۔ یا تو اس تخم کا نام تصریحاً لے لے یا عام اجازت دے دے کہ جو چاہے سو بونا۔
مسئلہ:- بعض جگہ رسم ہے کہ کاشتکار زمین میں تخم پاشی کر کے دوسرے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے اور یہ شرط ٹھہرتی ہے کہ تم اس میں محنت و خدمت کرو، جو کچھ حاصل ہوگا ایک تہائی مثلاً ان محنتیوں کا ہوگا، سو یہ بھی مزارعت ہے جس جگہ زمیندارِ اصلی اس معاملے کو نہ روکتا ہو وہاں جائز ہے،ورنہ جائز نہیں۔
مسئلہ:- اس اُوپر کی صورت میں بھی مثل صورتِ سابقہ عرفاً تفصیل ہے۔بعض اجناس تو ان عاملوں کو بانٹ دیتے ہیں، اور بعض میں فی بیگھہ کچھ نقد دیتے ہیں۔ پس اس میں بھی ظاہراً وہی شبہ عدمِ جواز کا اور وہی تأویل جواز کی جاری ہے۔
مسئلہ:- اجارہ یا مزارعت میں بارہ سال یاکم وبیش تک زمین سے منتفع ہو کر موروثیت کا دعویٰ کرنا جیسا کہ اس وقت رواج ہے، محض باطل اور حرام اور ظلم وغصب ہے۔ بدون طیبِ خاطر مالک کے ہرگز اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ اگر ایسا کیا تو اس کی پیداوار بھی خبیث ہے اور کھانا اس کا حرام ہے۔
مسئلہ:- مساقاۃ کا حال سب باتوں میں مثل مزارعت کے ہے۔
مسئلہ:- اگر پَھل لگے ہوئے درخت پرورش کو دے اور پَھل ایسے ہوں کہ پانی دینے اور محنت کرنے سے بڑھتے ہوں تو درست ہے۔ اور ان کا بڑھنا پورا ہوچکا تو مساقات درست نہ ہوگی، جیسے مزارعت کہ کھیتی تیار ہونے کے بعد درست نہیں۔
مسئلہ:- اور عقدِ مساقاۃ جب فاسد ہوجائے تو پھل درخت والے کے ہوں گے اور