ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
تبریزی ہوں جن سے مولانا رومی نے فرمایا تھا ؎خونداریم اے جمالِ مہتری کہ لبِ ماخشک و تو تنہا خوری اے شمس الدین، میرے پیر و مرشد! آپ اللہ کے قرب کی شراب کا مٹکے کا مٹکا پی رہے ہیں کچھ ہمیں بھی تو عطا فرمادیجیے، اللہ کے قرب کے باغ سے کچھ میرے کان میں بھی بتادیجیے کہ آپ اتنے مست کیوں رہتے ہیں؟ شمس الدین تبریزی نے فرمایا کہ جلال الدین تم میرے ساتھ نیک گمان رکھتے ہو، لیکن میرے پاس یہ سب کچھ نہیں ہےجس کا تمہیں حسنِ ظن ہے۔ مولانا رومی نے فرمایا کہ آپ کی تواضع سے ہم دھوکا نہیں کھاسکتے اور دلیل میں یہ شعر پیش کیا ؎بوئے مے را گر کسے مکنوں کند چشمِ مستِ خویشتن را چوں کند شراب کی بو کو اگر کوئی شرابی الائچی کھاکر چھپا بھی لے، لیکن وہ ظالم اپنی مست آنکھوں کو کہاں لے جائے گا ؟ جب دنیاوی شراب کا یہ حال ہے تو جو راتوں کو اللہ تعالیٰ کی شرابِ آسمانی پیتے ہیں اس کا نشہ کیسے چھپ سکتا ہے؟ ریاض خیر آبادی کے ایک شعر پر ایک رئیس سبحان اللہ خان نے چاندی کے ایک ہزار روپے آج سے سو برس پہلے ان کو پیش کیے تھے۔ بولیے! ایسے ایسے لوگ بھی تھے۔ آج کل میں بہت اچھے اچھے شعر پیش کرتا ہوں، لیکن کوئی بھی نہیں دیتا۔ (اس مزاح پر سامعین ہنس پڑے۔ مرتب) ان کو ایک شعر پر ایک ہزار چاندی کا روپیہ دیا تھا وہ کیا شعر تھا ؎اُتری جو آسمان سے تھی کل اُٹھا تو لا طاقِ حرم سے شیخ وہ بوتل اُٹھا تو لا اے شیخ!حرم کے طاق میں جو تو نے چھپاکے رکھی ہے وہ مجھے بھی پلادے۔ یعنی آسمانوں سے جو اللہ نے آپ کو اپنی محبت عطا فرمائی ہے اس کا تھوڑا سا مزہ ہمیں بھی چکھائیے۔ تو مولانا روم اپنے شیخ کے ایسے عاشق تھے کہ شیخ کی تواضع سے دھوکا نہیں کھایا۔ شیخ اگر کہہ دے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے تو اُلو ہوگا جو دھوکا کھاجائے گا۔ مولانا گنگوہی