ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
جس وقت اللہ دل میں آتا ہے یعنی تجلیٔ خاص سے متجلی ہوتا ہے تو سارے عالم کے سلاطین کے تخت و تاج نیلام ہونے لگتے ہیں، چاند سورج کی روشنیاں پھیکی پڑجاتی ہیں، حسینوں کی دنیا نگاہوں سے گرجاتی ہے، لیلائے کائنات اور مجانینِ عالم اللہ کی محبت کے نشے کے آگے کیا بیچتے ہیں، سورج اور چاند کی روشنی کیا بیچتی ہے، بادشاہوں کے تخت و تاج کیا بیچتے ہیں؟ لیکن کیا کہوں یہ دردِ دل اور نسبت مع اللہ حاصل کرنے کے لیے اہل اللہ کی صحبت کا ایک معتدبہ زمانہ چاہیے کہ سفر اور حضر دونوں میں ان کے ساتھ رہو اور مجاہدہ کی مشقت بھی اُٹھاؤ، دیکھو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ان کی نظرِعنایت پڑجائے گی۔ اہل اللہ کی نظر کی کرامت حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفسیر موضح القرآن کے مصنف اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے ایک مرتبہ دلّی کی مسجد فتح پوری میں بہت دیر تک عبادت کے بعد نکلے تو ان کا دل انوار سے بھر گیا تھا ، نور بھر کر دل سے چھلک رہا تھا، چہرے سے جھلک رہا تھا اور آنکھوں سے ٹپک رہا تھا، وہ نظر ایک کتے پرپڑگئی۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ حاجی امداداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے راوی ہیں کہ جس طرف وہ کتا جاتا تھا دلّی کے سارے کتے اس کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آہ! جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے ان کی نگاہوں سے انسان کیسے محروم رہ سکتا ہے؟ اس لیے اہل اللہ کے صحبت یافتہ کو حقیر مت سمجھو، تمہاری تف اور تمہارا تھوک تمہارے چہرے کے اُوپر ہی گرے گا۔ سورج پر کوئی تھوکتا ہے تو اُس کا تھوک اُسی کے چہرے پر گرتا ہے۔ یقین رکھو کہ ؎چراغے را کہ ایزد بر فروزد ہر آں کو تف زندریشش بسوزد جس چراغ کو حق تعالیٰ روشن کرے تو جو اس پر تھوکتا ہے اسی کی داڑھی جل جاتی ہے۔ اب میں ایک قصہ سناتا ہوں۔ ایک دن میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ