ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خدا کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں ہے، میں کچھ نہیں ہوں۔ اُن کی یہ بات سن کر دو دیہاتی اُٹھے اور بھاگ گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ جب میاں جی کے پاس کچھ نہیں ہے تو ہمیں کیا دیں گے۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ فرمانا کہ میں کچھ نہیں ہوں یہی دلیل ہے کہ وہ بہت کچھ تھے ؎کچھ ہونا مرا ذلت و خواری کا سبب ہے یہ ہے مرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب بہت دیندار ہیں مگر ایک کمی ہے کہ اپنے کو دیندار سمجھتے بھی ہیں۔ آہ! کیا بات ہے، کیا بات ہے، اس بات کی کیا بات ہے!دیندار ہونا تو فرض ہے مگر خود کو دیندار سمجھنا حرام ہے۔ ایک آیت قرآنِ پاک سے اس کے استدلال میں پیش کرتا ہوں، ان شاء اللہ کوئی دعویٰ میرا ایسا نہیں ہوگا جس کی دلیل میں قرآنِ پاک یا حدیثِ پاک سے پیش نہ کروں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کے گندے گندے تقاضوں کا تزکیہ کرلیا وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا 7؎ اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اپنی گندی خواہشات اور حرام لذتوں کی درآمدات اور امپورٹنگ کو جاری رکھا کہ اللہ بھی مل جائے اور ہماری بت پرستی بھی چلتی رہے۔ ایک ٹانگ خانقاہ میں اور دوسری ٹانگ بت خانے میں یعنی حسینوں اور نمکینوں کا چکر بھی اور تسبیح پر اللہ اللہ بھی۔ تو سمجھ لو کہ ایسے اللہ نہیں ملتا، ایسا شخص نامراد اور بے سکون رہتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں اے بے وقوفو! سن لو نمکین پانی سے پیاس نہیں بجھے گی ؎نیست آبِ شور درمانِ عطش نمکین پانی سے پیاس نہیں بجھتی بلکہ اور بڑھ جائے گی، اگرچہ وہ پیتے ہوئے خوش ذائقہ اور ٹھنڈا _____________________________________________ 7؎الشمس : 9-10