ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
سوراخ ہوتے ہیں اور سانس لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ یہ ٹوکری میرے بھانجے ظفر عثمانی کو پیش کردو کہ ماموں نے ایک عظیم تحفہ بھیجا ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی سمجھے کہ ماموں نے ہمیں کوئی خربوزہ، تربوز، کیلا یا کوئی اور پھل وغیرہ بھیجا ہوگا۔ جب اس کو کھول کر دیکھا تو اپنی بچی نکلی تو فرمایا: واقعی عظیم تحفہ ہے۔ا س سے حضرت کی خوش مزاجی اور خوش دلی بھی ثابت ہوتی ہے۔ آج کل خوش دلی والے کو پیر ہی نہیں سمجھتے۔ سمجھتے ہیں کہ پیر وہ ہے جو آنکھ لال کیے ہو اوربھینسے کی طرح سانس پھلاتا ہو، ناک پھلاپھلا کر سانس لے رہا ہو اور سب پر رعب جمائے ہوئے ہو۔ یہ طریقہ ہمارے بزرگوں کا نہیں ہے، ہمارے بزرگ تو گھل مل کے رہتے ہیں۔ شرعی پردے کا اہتمام ایک واقعہ یاد آگیا کہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کے سگے بھائی مولانا سعید احمد صاحب جب بارہ سال کے ہوگئے، تو حکیم الامت نے پوچھا مولوی سعید! تمہاری کیا عمر ہوگئی؟ کہا بارہ سال۔ فرمایا ممانی سے پردہ ہے یا نہیں؟ بس پھر گھر نہیں گئے حالاں کہ حضرت پیرانی صاحبہ نے ان کو پالا تھا، ان کی اماں بچپن میں انتقال کر گئیں تھیں۔ پیرانی صاحبہ نے فرمایا یہ تو چھوٹا سا تھا، ہم نے اسے ہگایا مُتایاہے۔ فرمایا کچھ بھی ہو مسئلہ یہی ہے۔ ماں اپنے بچے کو ہگاتی متاتی ہے، مگر جب بچہ بالغ ہوجائے تو کیا پھر بھی اس کو ہگامتاسکتی ہے؟ شرم کی جگہ دیکھ سکتی ہے؟ بعضے لوگ کراچی میں چھوٹے بچوں کو نوکر رکھتے ہیں، جب وہ بالغ ہوجاتے ہیں تو بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ آنے جانے دو، یہ تو بچپن کا پالا ہوا ہے۔ دوستو! عمر کی زیادتی سے مسئلے بدل جاتے ہیں۔ وہ لڑکا جس کو چار پانچ سال کی عمر سے پالا تھا جب بالغ ہوگیا تو اب اس کا گھر میں آنا جانا جائز نہیں ہے، اب اس سے پردہ کرو، شرعی پردہ بہت ضروری ہے۔ بلندی پر چڑھنے اور اُترنے کی سنت میں جس مضمون کو بیان کرنا چاہتا ہوں اس سے پہلے دو تین سنت پیش کرتا ہوں کہ میرے شیخ کی ہدایت ہے کہ وعظ سے پہلے دو تین سنت بیان کردو کہ امت کو کچھ عمل بھی مل