ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
اس لیے دوستو! جب نیا اور اچھا لباس پہنو تو خود کو بڑا نہ سمجھو، جب لباس بہترین پہنو تو اللہ کا شکر بھی بہترین طریقے سے ادا کرو۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ساڑھے چار سو درہم کی چادر اوڑھتے تھے، اُس زمانے کا ساڑھے چار سو! اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے فرماتے تھے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا، اِس زمانے میں اچھے کپڑے پہنو تاکہ علماء کی بے وقعتی نہ ہو۔ اور حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے صوفیو اور مولویو! اور اے دیندارو اور داڑھی والو! چار پیسے بچاکر رکھو، ورنہ امیر لوگ تم کو اپنی ناک صاف کرنے کا رومال بنالیں گے۔ اگر اللہ چار پیسہ دے تو اس کو ضایع مت کرو، اس سے قلب مستغنی رہتا ہے۔ مفرحاتِ قلب حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں سو کا نوٹ جیب میں ہو تو ایک بوتل کا نشہ رہتا ہے، لیکن یہ اُس زمانے کا سو کا نوٹ تھا، آج کا تو ہزار کا نوٹ بھی اس مقام پر نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ اطباء اور حکماء نے ایک غلطی کی ہے کہ جہاں مفرحاتِ قلب کی دوائیں خمیرہ آبریشم، خمیرہ مروارید وغیرہ لکھی ہیں وہاں دو چیزیں وہ بھول گئے: ایک یہ کہ جیب میں کچھ سکہ بھی ہو اور دوسری چیز چھوٹے بچے ہیں،یہ بھی مفرحِ قلب ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب خانقاہ سے اپنے گھر کی طرف جاتے تھے تو راستے میں چھوٹے چھوٹے بچوں میں کسی کا کان اینٹھ دیا، کسی کے سر پرہلکا سے چپت لگادیا۔ اب وہ غصہ ہورہا ہے کہ اللہ کرے بڑے ابّا مرجائیں، تھانہ بھون کے بچے حضرت کو بڑے ابّا کہتے تھے، تو حضرت فرماتے تھے کہ جب بچے کہتے ہیں کہ یا اللہ بڑے ابّا مرجائیں تو مجھ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ دعا دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑے ابّا کو جلدی سے اپنی ملاقات عطا فرمادیں۔ اللہ والوں کی خوش دلی مولانا ظفر احمدعثمانی حضرت کے سگے بھانجے تھے جن کی ایک چھوٹی سی دودھ پیتی بچی تھی۔ ایک مرتبہ خانقاہ میں خربوزہ آیا۔ حضرت نے خربوزے کی ٹوکری خالی کرکے اس میں اُن کی سوئی ہوئی بچی کو رکھ کر اُوپر سے بند کردیا۔ وہ ٹوکری ایسی ہوتی تھی جس میں جگہ جگہ