میں مت آؤ۔ یہ قرآن و حدیث کی باتیں مت مانو، روحانیت کا راستہ اور ہے، مولویت کا راستہ اور ہے، سنت و شریعت کا راستہ اور ہے، طریقت کا راستہ اور ہے۔ نعوذ باللہ! ان کے نزدیک قرآن و حدیث کا راستہ اور ہے اور صوفیوں کا راستہ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں:
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَاسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ15 ؎
اے میرے نبی کے صحابہ! جن کے دور میں جبرئیل علیہ السلام کی آمدو رفت ہورہی ہے اور جن کے سامنے نبی پر قرآن اُتر رہا ہے اور سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں جن کی تربیت ہورہی ہے، اُن سے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ جب تم ہمارے نبی کی بیویوں سے سوال کرو،یا بازار سے سودا سلف لانے کے لیے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے باہر سے پوچھو، دیکھو! اندر مت جاؤ۔ کیوں صاحب! صحابہ سے بڑھ کر کون پاک ہوسکتا ہے؟ اُن سے تو پردہ کرایا جارہا ہے اور نبی کی بیبیاں اتنی پاک ہیں کہ اُمت کی مائیں ہیں، جہاں قرآن نازل ہورہا ہے، جس گھر میں جبرئیل علیہ السلام آرہے ہیں ایسا پاک اور پیارا گھرانہ وہاں پر تو پردہ ہو اور آج کا پیر کہے کہ ارے مولویوں کے چکر میں مت پڑو، مرد بھی بیٹھے ہیں عورتیں بھی ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں اور قوالی ہورہی ہے اور حال بھی آرہا ہے۔
ایک شخص لالوکھیت کے ایک پیر سے مرید تھا، وہاں قوالی ہوتی تھی، مسجد میں نماز کی جماعت ہورہی ہے اور وہاں قوالی ہورہی ہے، کوئی مسجد میں جماعت میں نہیں گیا۔ یہ کیا بات ہے کہ نماز اور روزہ چھڑا کر طبلہ بجوایا جارہا ہے، گویا نعوذ باللہ! طبلہ عبادت ہے۔ ذرا سوچو کہ تمہارے نبی نے بھی کبھی طبلہ بجایا ہے؟ ہمیں کسی حدیث میں دکھلاؤ، سب سے پہلے میں تم سے طبلہ بجوادوں گا۔ اگرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی طبلہ بجایا ہوتا، سارنگی بجائی ہوتی، قوالی ہوئی ہوتی، لوگ اُچھلے کودے ہوتے، تو بخاری شریف اور احادیث کی دوسری کتابوں میں سب آجاتا،کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اس دین کے ذمہ دار ہیں،اس دین میں کوئی ملاوٹ نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے قرآن نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔ توریت اور انجیل کی بات چھوڑیے، سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہیں لیا تھا، وہ پہلی اُمتوں کے علماء کے ذمہ کیا تھا، وہ پیٹو بن گئے اور آسمانی کتابوں کو بیچنے لگے اور تحریف
_____________________________________________
15؎ الاحزاب:53