تھی اور اندھیرا ہوگیا تھا تو جنریٹر چلنے سے فوراً سارے بلب جگمگا اُٹھے اور روشنی ہوگئی۔ مجھے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر یاد آگیا؎
بادِ تُند است و چراغ ابترے
زو بگیرانم چراغِ دیگرے
چراغ کمزور ہے اور ہوا تیز چل رہی ہے، اے دنیا والو! دوسرا چراغ جلانے کی فکر کرو۔ جلال الدین بے وقوف نہیں ہے۔ شیخ شمس الدین تبریزی کے صدقے میں اس نے سنت پر چل کر، گناہوں سے بچ کر دوسرا چراغ اللہ کی نسبت کا جلالیا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب آنکھ بند ہوتی ہے اور موت آجاتی ہے تو اللہ والوں کے دل میں نورِ الٰہی کا چراغ فوراً روشن ہوجاتا ہے جیسے ابھی جنریٹر سے فوراً روشنی آگئی۔
دنیا کے سارے مزے، بلڈنگیں، کوٹھیاں، مرسڈیز، تجارت کے ہنگامے اور لیلاؤں کے نمکیات جب آنکھ بند ہوگی تو سب ختم ہوجائیں گے۔ایک دن دنیا سے ہم سب کو رخصت ہونا ہے۔ دنیا کی اس بے ثباتی پر میں نے ہردوئی میں ایک شعر کہا تھا۔ میں اور حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ رکشہ پر جارہے تھے۔ میں نے کہا حضرت! میرا ایک شعر ہوا ہے۔ شعر سن کر مفتی صاحب نے کہا کہ اس شعر کو اپنے حضرت والا مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کو ضرور سنانا۔ وہ شعر جسے مفتیٔ اعظم ہند نے پسند فرمایا، یہ تھا؎
یہ چمن صحرا بھی ہوگا یہ خبر بلبل کو دو
تاکہ اپنی زندگی کو سوچ کر قرباں کرے
اللہ والوں کی غلامی اور صحبت کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ ان کے مال دار مریدوں کو دیکھتے رہو۔ اللہ والوں کے پاس اللہ کو حاصل کرو۔ واللہ کہتا ہوں دنیادار تمہاری جوتیاں اُٹھانے کے لیے دوڑیں گے۔ انگور کے کیڑے مت بنو۔ انگور کا کیڑا انگور کھانے چلا تھا کہ ہرے ہرے پتّے دیکھ کر دھوکے میں آگیا اور اسی کو انگور سمجھ کر ساری زندگی اسی پتّے پر چپٹا رہا اور اسی پتّے پر اس کا قبرستان بن گیا اور انگور سے محروم رہا۔ اسی طرح بعضے مرید اللہ کو حاصل کرنے چلے لیکن دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوگئے اور اللہ سے محروم دنیا سے گئے۔ اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے۔