ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2009 |
اكستان |
|
وفات : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات منگل کی شب ١٧ رمضان المبارک ٥٨ ھ میں ہوئی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اِن کا سن ِوفات٥٧ھ ہے۔ مرض الوفات میں جو لوگ مزاج پُرسی کو آتے اور بشارت دیتے تو (آخرت کے حساب کے ڈر سے)فرماتیں کاش میں پتھر ہوتی،کاش کسی جنگل کی گھاس ہوتی۔اِسی زمانے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اُن کے پاس تشریف لے گئے اور اُن کے خصائل و مناقب ذکر کیے تو فرمایا اے ابن عباس رہنے دو، قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ میری جان ہے میں تو یہ پسند کرتی ہوں کہ کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ وفات ہو جانے پر حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے جنت واجب ہے اَور یہ بھی فرمایا کہ خدا اُن پر رحمت کرے وہ اپنے باپ کے علاوہ آنحضرت ۖ کو سب سے زیادہ پیاری تھیں ۔ وفات کے قریب وصیّت فرمائی کہ میں رات ہی دفن کردی جائوں چنانچہ وتر نماز کے بعدجنت البقیع کے سپرد کر دی گئیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور دفن کے لیے اُن کے حقیقی بھانجے حضرت عبداللہ اور عروہ اور اُن کے بھائی کے بیٹے قاسم اَور عبداللہ بن محمد بن ابی بکر اور دُوسرے بھائی کے بیٹے عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم قبر میں اُترے اور اُن کو دفنایا۔ (الاصابہ و الاستیعاب) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاہَا آرزو یہی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے مدینہ میں مرنے کو جی چاہتا ہے یہ کس جانِ جاناں کا فیضِ نظر ہے کہ جی سے گزرنے کو جی چاہتا ہے بگڑنے ہی میں عمر گزری ہے ساری خدایا ! سنورنے کو جی چاہتا ہے