ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
ستعمال فرماتے تھے۔ ٭ کبھی کبھی تمام شروط کی موجودگی میں بھی دُعا مقبول نہیں ہوتی ،جناب رسول اللہ ۖ نے دُعا فرمائی کہ اُمت آپس میں نہ لڑے ،مگر یہ دُعا قبول نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مختار ہے لَایُئْسَلُ عَمَّا یَفْعَلُ (الآیة) ٭ حکمت ہائے الٰہیہ اور پرورش ہائے ربانیہ متقاضی ہیں کہ اِنسانوں کی سب دعائیں قبول نہ کی جائیں ورنہ عالم تہہ وبالا ہوجائے گااور اِنسانی دنیا کو انتہائی مشکلات پیش آجائیں گی۔ ٭ تقدیر اور قضاء اُسی علم الہٰی قدیم اور ارادہ وحکم ِالٰہی کا نام ہے جو کہ اَزل سے ا ِس تمام عالم کے متعلق مکمل ہو چکا ہے ،اِس تمام کارخانہ کو عالم ِتکوین وایجاد کہا جاتا ہے۔ ٭ اللہ نے اپنی مخلوقات ِدُنیا ویہ میں سے انسان اور جن کو علم و اِرادہ بھی دیا ہے جو کہ دیگر مخلوقات کو نہیں دیا گیا،فرشتوں اور اَرواح کو اگرچہ علم و اِرادہ دیا گیا لیکن اِن کو بالکل تابع اور مقہور اِرادہ الہٰی کے اِس طرح کردیا گیاہے جیسا کہ بڑی مشین کے تابع اُس کے پُرزے ہوتے ہیں۔ ٭ (انسان)گھر بناتا ہے،کھیتی کرتا ہے،اناج جمع کرتا ہے ،آٹا پیستا ہے ،روٹی پکاتا ہے ،لقمے توڑتا ہے ، وغیرہ وغیرہ اور کسی بات میں تقدیر کو پیش نہیں کرتا ،پھر اِس کے کیا معنٰی ہیں کہ جب آخرت کاکام یا اور کوئی دُوسرا بڑا کام سامنے آجاتا ہے تو تقدیر پر اِلزام رکھ کر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہتے ہیں ،اِسلا م کی یہ تعلیم نہیں ،اِسلام جدوجہد کرنااوراسباب وذرائع کو عمل میں لانا ضروری بتاتا ہے۔ ٭ قرآن فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہمارے لیے کوشش کریں گے ہم اُن کو اپنی راہیں دِکھلائیں گے اور اُن پر چلائیں گے۔ قرآن ہر ہر جگہ عمل کرنے اوربد عملی سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔ ٭ اعرابی پوچھتا ہے کہ اُونٹ کو باندھ کر توکل بر خدا کروں یا اُونٹ کو کھول کر ؟تو آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرما یا اِعْقِدْ وَ تَوَکَّلْ یعنی باندھ اور توکل کر۔ ٭ جناب رسول اللہ ۖ کو مژدہ سنایا گیا اور قوی طریقے پر اِرشار کیا گیا: ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ (الآیہ) اور فرمایا گیا لَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا (الآیہ) ایسی متعدد آیتیں ہیں جن سے جناب رسول اللہ ۖ کا فتح مند اور غالب ہو نا اور دُشمنوںکا مقہور ہونا ،دین اسلام کا پھیل جانا وغیرہ یقینی طورپر معلوم