ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
اورانسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل کو ایک بے قدر پانی سے (یعنی نطفہ) سے پیدا کیا ۔ ''الانسان'' میں الف لام عہد کا ہے اور مراد آدم علیہ السلام ہیں ۔'' ثم '' تراضی کے لیے ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ۔ اس کے بعد ان کی نسل کو نطفہ سے پیدا کیا جبکہ ڈاکٹر اسرار صاحب کے نظریہ کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام بھی نطفہ ہی سے پیدا ہوئے تھے ۔ (ج) یا ایھا الناس اتقو ا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا و بث منھما رجلا کثیرا و نسائ۔ اے لوگو اپنے پرور دگار (کی مخالفت )سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار (یعنی آدم علیہ السلام )سے پیدا کیا اور اسی جاندار سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت مردوںاور عورتوں کو پھیلایا۔ نفس واحد ة سے اس کا زوج پیدا کیا پھر جیسا کہمنھما کی ضمیر سے واضح ہے اسی نفس واحد ة او ر اسی سے پیداکیے ہوئے زوج سے بہت سے مردوںاور عورتوں کو پیدا کیا ۔ ضمائر کا خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار صاحب صاف واضح مطلب کو چھوڑ کرنہ جانے ا س آیت کا کیا مطلب لیں گے ۔ قرآن پاک کے اس مضمون کے عین موافق احادیث کا مضمون بھی ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نظریہ ارتقاء کو اختیار کرکے قرآن کی گستاخی کے مرتکب ہوئے او ران کو ا س وعید سے ڈرنا چاہیے کہ من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار (حدیث )اور حدیث کی گستاخی کے بھی مرتکب ہوئے کہ حدیث کے الفاظ کو علامتی اور استعاراتی نوعیت کے الفاظ پر محمول کرتے ہیں اور وہ بھی محض ایک قیاس آرائی (speculation)پر نظریہ ارتقا ء اب تک محض ایکspeculation ہی ہے ۔اور حضرت آدم علیہ السلام کے والدین کو زمرہ حیوانات میں شمار کیا بلکہ خود ان کو بھی روح پھونکے جانے تک زمرہ حیوانات میں ہی رکھا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ان سب گمراہیوں اور خرافات کے لیے ڈاکٹر اسرار صاحب حدیث انتم اعلم بامو ر دنیا کم کا سہارا لیتے ہیں جو عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہے ۔ امور دنیا سے کیا مراد ہے ؟یہاں بھی ڈاکٹر اسرار صاحب سخت غلطی کر گئے جس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امور دنیا سے مراد وہ دنیوی کام ہیں جن کے طریقہ کار کے بارے میں دین نے خود کوئی ہدایات نہیںدیں او ر وہ لوگوں پرچھوڑ دیا گیا ہے ۔ حضر ت آدم علیہ السلام کی پیدائش یعنی انسان کا مبدأ ایسا کام تو نہیں جو انسان کے دائرہ اختیار اور دائرہ کار میں آتا ہو ۔یہ تو اللہ تعالی کا کام ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسول ہی کے لا ئق ہے کہ وہ ہمیں ہمارے مبدا ٔ کے بارے میں بتائیں ۔