ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
اپنے سچے دین کو چھوڑ کر اپنے باپ دادوں کی روحوں کوصدمہ نہیں پہنچا رہے ہو؟
تقریر ختم ہونے کے بعد گائوں کے لوگ از سر نو مسلمان ہوگئے ۔'' ١
فراستِ مؤمن :
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ''مؤمن کی فراست سے ڈروکیونکہ وہ اللہ کی عطاکردہ روشنی میں دیکھتا ہے ''
فراستِ مؤمن سے متعلق ایک واقعہ نظر سے گزرا دل چاہا کہ قارئین کے سامنے پیش کیا جائے یہ واقعہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ سے متعلق ہے جو حضرت مولانا قاضی سجاد حسین صاحبنے تحریر فرمایا ہے ،موصوف لکھتے ہیں :
''اب سے تقریبًا ١٨ برس پہلے کا واقعہ ہے ایک ادھیڑ عمر غیرمسلم مسجد میں آیا اور اور مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ۔امام صاحب فتح پوری نے حسب معمول اسلام کی تلقین کردی اسی زمانہ میں میں او ربعض اساتذہ مدرسہ عالیہ کے دارالطلبہ ہی میں مقیم تھے اورہم اور ہم نے اپنے مطبخ کا الگ انتظام کر رکھا تھا جس میں ایک سادہ لوح نیک دل باورچی کام کرتا تھاکرتا تھا ۔ یہ نو مسلم رفتہ رفتہ ہم
صفحہ نمبر 53 کی عبارت
تک پہنچ گیا اور ہم نے از را ہ تالیف قلب اُسے اپنے پاس ٹھہرا لیا ۔ کپڑے بنائے کچھ ما لی مدد کی ساتھ کھانا کھلانا شروع کر دیا اور اس کو مدرسہ کی ابتدائی تعلیم میں شریک کر دیا ۔ کچھ عرصہ بعد ہم نے مفتی صاحب مرحوم سے اس نو مسلم کا سارا حال بیان ۔ تحسین و آفریں کی اُمّید پر اب تک اپنی تمام ہمدردیاں بیان کیںاور درخواست کی کہ مدرسہکی جانب سے اس نو مسلم کا تعلیمی وظیفہ جاری کردیا جائے۔
مفتی صاحب حسب عادت مستفسر انہ انداز میں ہم سے معلومات حاصل کرتے رہے آخر میں اپنے ایک خاص انداز میں فرمانے لگے کہ سب سے پہلے تو آپ صاحبان جواب دیں کہ آپ نے بورڈنگ میں اپنے ساتھ کس کی اجازت سے ٹھہرایا ہے ؟گویا مفتی صاحب نے ہماری بے قاعدگی پر گرفت کی ۔ اس لیے کہ بورڈنگ میں مہمان کو ٹھہرانے کے ہم مجاز نہ تھے ۔
مفتی صاحب کی گر فت اورجواب ہمارے لیے با لکل خلاف توقع تھاہم تو یہ اُمّید لے کر گئے تھے کہ مفتی صاحب کی مجلس سے اپنے لیے آفرین و تحسین اور نو مسلم کے لیے وظیفہ کی منظوری لے کر لوٹیں گے۔ مفتی صاحب کا یہ طرز عمل بہت تلخ او رناگوار گزرا۔اور غالبًا دلی جذبات ہمارے چہروں
١ مفتی اعظم کی یاد ص ١٩٩
١
١ مفتی اعظم کی یاد ص ١٩٧