ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
ہاتھ نہ لگاتے تھے جب تک کوئی معتبر آدمی یہ نہ بتا دے کہ میرے سامنے بسم اللہ پڑھ کرذبح کی گئی ہے ۔جن ہوٹلوںمیں برازیلی اور فرانسیسی مرغیاں ہوتی ہیں ان ہوٹلوں سے روٹی تک نہ خریدتے تھے،یہاں تک کہ ایسے ہوٹلوں میں مرغی کے علاوہ جو سالن بنتے ہیں وہ بھی نہ کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہوٹل والے کی آمدنی مشتبہ ہے اور مرغی اور گوشت والے چمچے سے ہی یہ لوگ دوسرا سالن بھی نکالتے ہیں۔ایک صاحب جن کا مدینہ میں ایک ریسٹورنٹ تھا ،انہوں نے عرض کیا ''حضرت میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں''۔فرمایا : ''تمہارا پیسہ حلال نہیں ہے ،تم باہر کی مرغیاں فروخت کرتے ہو ، میں تمہاری د عوت نہیں کھاتا ۔''اس نے عرض کیا :''حضرت اب تو میں نے ہوٹل بند کردیا ہے اور ہر چیز دس ریال والی دکان کر لی ہے ۔'' فرمایا : ''وہ بھی تو اسی پیسے سے کی ہے ۔''وتر پڑھنے لگے تو ان صاحب نے اپنی جائے نماز بچھا دی ۔فرمایا :''اپنی جائے نماز ہٹا لو ! میں اس پر نماز پڑھنے کو درست نہیں سمجھتا''۔ حق گوئی و بے باکی : مسجد بنوی میں ایک صاحب مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے ۔ فرمایا :''مجھے نماز پوری کرنی ہے ، اگر طلب سچی ہے تو بیٹھو ''۔وہ بیٹھ گئے ۔جب حضرت والد ماجد رحمہ اللہ نماز سے فارغ ہوئے توانہوں نے مسئلہ پوچھنا چاہا تو فرمایا : ''مسئلہ دریافت کرنے سے پہلے یہ بتائو کہ ڈاڑھی کیوں کاٹتے ہو؟انہوں نے عرض کیا کہ آپ دعاء کریں ۔فرما یا : ''میں دعاء کروں اور تم کچھ نہ کرو ۔''انہوں نے کہا کہ میں انشاء اللہ ڈاڑھی سنت کے مطابق رکھ لوں گا۔ فرمایا : ''ابھی وعدہ کرو''۔چنانچہ ان سے پہلے وعدہ لیاپھر مسئلہ بتایا۔ بدعت سے نفرت : بدعت اور اہل بدعت سے شدید نفرت تھی ۔ مکہ معظمہ کے ایک شیخ جو بعض بدعات میں مبتلا ہیں ، حج کے دوران منٰی میں اسی معلم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں ہم لوگ تھے ۔ اچانک وہ ملاقات کے لیے آگئے ۔حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ فلاںہیں ۔ جب وہ چلے گئے تو کسی نے ان کا نام بتایا تو سن کر بہت زیادہ استغفار کی اور فرمایا : ''لا علمی میں مَیں نے ایک بدعتی کو سلام کا جواب دے دیا اور اس کا اکرام کیا''۔مذکورہ شیخ کا ایک شاگرد گھر پر ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ میں نے اطلاع دی کہ ابا جی ! فلاں بن فلاں اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے فرمایا : ''اس سے کہہ دو کہ اگر بدعت سے توبہ کی ہے تو اندر آئے ورنہ اجازت نہیں ''۔ مدینہ سے والہانہ محبت : مدینةالرسول ۖ سے والہانہ محبت تھی چھبیس سال کے عرصہ میں صرف دو مرتبہ پاکستان تشریف لے گئے