ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
اولاد او ر ذرّیت کے لیے ایک خاص دعاء : ہمیشہ یہ دعا فرماتے تھے کہ ''اے اللہ ! میری اولاد کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرمااو ر ہماری آنے والی نسلوںکو بھی دین پر استقامت نصیب فرما ''۔ عرفات کے میدان میںبھی گڑ گڑا کر یہ دعا ضرور کرتے تھے ۔ اٹھائیس حج کیے اور بے شمار عمرے کیے جن کی تعداد کا صحیح علم صرف اللہ تعالی کو ہی ہے ۔ اللہ ہمیں دین پر استقامت نصیب فرمائے اور اس قافلہ سے ملائے جوانبیاء ،صدیقین ، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ بعض سبق آموز اور حیرت انگیز واقعات دنیا سے بے رغبتی : میرے چھوٹے بھائی مولوی محمد مدنی نے بیان کیا کہ جنوبی افریقہ سے ایک صاحب آئے ۔ گیارہ ہزار ریال خدمت میں پیش کیے کہ یہ آپ کے لیے ہدیہ ہیں ۔ فرمایا : ''ان پیسوں کو اٹھا لو ! میرے پاس نہ ان کے رکھنے کی جگہ ہے نہ خرچ کرنے کی ''۔ انہوں نے عرض کیا : ''میں تو نیت کرچکا ہوں، ہرگز واپس نہ لوں گا''۔ تو فرمایا میں تمہاری نیت کا ذمہ دار نہیں،اپنے پیسے اٹھا لو'' ۔وہ صاحب بالکل نہ مانے اور پیسے وہیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ان کے جانے کے بعد اس رقم کو ہاتھ نہ لگایابلکہ اپنے ایک شاگرد سے فریایا : ''ان کو رکھ لو اور جس ادارہ نے میری تفسیر شائع کی ہے ان کو بھج دو کہ اس رقم کے جتنے سیٹ بنیں وہ تقسیم کر دیے جائیں''۔ ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا : ''میاں ! دنیا جتنی کم ہو اتناہی اچھا ہے ''۔ وفات سے تین چار دن قبل کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب امریکہ سے آئے اور اپنے کاروبار کی تفصیل بتاتے رہے کہ امریکا میں میرا بہت بڑا کاروبار ہے اور اب کراچی میں ایک فیکٹری لگا رہا ہوں۔ ان کی باتیں سخت نا گوار گزریںکیونکہ دنیا کا تذکرہ بھی پسند نہ تھا ۔ ان سے فرمایا : ''دنیا جمع کرنے والوں نے کیا پھل پایا ہے ؟لا تغرنکم الحیاة الدنیا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے ۔آخر ت کی فکر میں لگو اور اسی کے لیے عمل کرو'' اور کافی دیر تک دنیا کی بے ثباتی او ر حقارت بیان کرتے رہے ۔ میں اس وقت مجلس میں موجود تھا ۔ وہ صاحب کہنے لگے : ''حضرت کا مزاج جلالی ہے ''۔میں نے کہا : ''بزرگوں کے سامنے سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے ''۔ تقوٰی اور شبہات سے اجتناب : تقوٰ ی کے اعلی درجہ پر عمل کرتے تھے ،ہر مشتبہ چیز سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ گوشت اور مرغی کو اس وقت تک