ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
امید ہے کہ اب آپ اپنے اس دعوے پر کہ''وہ شخص اسلاف کی تشریحات کے مطابق درس قرآن بھی د یتا ہے'' نظرثانی کریں گے مٹی کا پتلا بنا کر اس میں روح پھونکنا اور امیبا(amoeba)سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے جب انسانی قالب میں تبدیل ہو اس وقت روح پھونکی جائے یہ دو متضاد نظریات ہیں لیکن دونوں کا موٹاسا تصور ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ نظر یہ ارتقا ء کا اجمالی تصور ہرطالب علم بلکہ بہت سے ان پڑھوں کو بھی حاصل ہے ۔ یہ تجلیات کی طرح کا پیچیدہ مضمون نہیں جو ہر شخص نہ سمجھ سکے اس لیے ایک باندی کا یہ کہنا کہ اللہ آسمان پرہے قابل قبول ہو جائے۔غرض ڈاکٹر اسرار صاحب کا محض بلا دلیل دونوں باتوں کو عین ایما ن سمجھنا اسلام کے ساتھ نادان کی دوستی ہے ۔ سائنسی تحقیقات کے اعتبار سے قرآن کی تفسیر کے بارے میں ڈاکٹر اسرار صاحب کا جو فلسفہ ہے اس کے بارے میں ہماری کتاب ''ڈاکٹر اسرار احمد کے افکار و نظریات ۔ تنقید کی میزان میں''کے صفحات ٤٢تا ٤٩ملاحظہ فرمائیں ۔ چند وضاحتیں : (١) ولقد خلقنا کم ثم صورناکم ثم قلنا للملا ئکة اسجدوا لآدم (سورہ اعراف : ١١) آپ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے ڈاکٹر اسرار صاحب کے ذکر کردہ ارتقا ئی مراحل کی تائیدہوتی ہے۔ صریح مطلب کو چھوڑ کر نسبتًا غیر صریح آیات کو لے کر ڈاکٹر صاحب تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ طریقہ بھی غلط ہے ۔خلقناکم کایہاں مطلب ہے کہ ہم نے تمہارا مادہ بنایا بایںطورکہ رُئوئے ارض سے مٹی لی اور اس میں خمیر پیدا کیا یہاں تک کہ وہ گارا بن گئی ۔ پھر اس گا رے سے آدم علیہ السلام کا پتلا تیار کیا اس احتمال کے ہوتے ہوئے د وسرے احتمال کی طرف جانے کی کیا ترجیح ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے اس میں بات کتنی واضح ہے : لما صور اللّٰہ آدم فی الجنة ترکہ ماشاء اللّٰہ ان یترکہ فجعل ابلیس یطیف بہ فینظر ماھو ۔ فلما راٰہ اجوف عرف انہ خلق خلقالا تیمالک جب اللہ تعالی نے جنت میں آدم کی صورت بنائی تو جب تک چاہا اس کو چھوڑے رکھا ۔ابلیس اس کے گرد گھومنے لگاکہ دیکھے یہ کیا ہے ۔ جب دیکھا کہ اندر سے کھوکھلا ہے توجان لیا کہ ان کو ایساپیدا کیا کہ ان میں ثبات نہ ہوگا۔ واللّٰہ انبتکم من الارض نباتا (سورہ نوح ) میں بھی یہی بات چلتی ہے ۔ (٢) آپ ڈاکٹر اسرار صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں : ''وہ اس با ت کا شدت سے قائل ہے کہ اسلامی قانون وشریعت میں قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ حدیث و سنت رسول کو بھی مستقل اساس کی حیثیت حاصل ہے بلکہ اس کا کہناہے کہ احکام دین کی تفصیلات کے ضمن میں اکثر معاملات میں ہمیں تمام تر رہنمائی سنت رسول ۖہی سے حاصل ہوتی ہے ۔'' ہمیں افسوس ہے کہ حدیث و سنت کامقام بتاتے ہوئے ڈاکٹر اسرار صاحب نے صرف اس کی قانونی و تشریعی حیثیت کو