ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
پاکستان آمد اور دارالعلوم کراچی میں تقرر : ١٣٨٤ھ میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے پاکستان طلب فرمایا ،حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دام مجدہم کے ذریعہ غائبانہ تعارف حضرت کو حاصل تھا ،چنانچہ پاکستان تشریف لے آئے اور بارہ سال تک جامعہ دارالعلوم کراچی میں حدیث وفقہ کی کتابیںپڑھاتے رہے اور فقہی سوالات کے جوابات بھی لکھتے رہے ،فرمایا کرتے تھے کہ میںنے اس سے قبل فتوٰی نویسی کا کام نہ کیا تھا ، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ بیمار ہوئے تو مجھ سے فرمایا کہ تم کل سے فتوٰی لکھا کرو، نہ جانے حضرت نے دل سے کیسی دعا دی کہ افتاء کا کام آسان ہو گیا۔ دیارِحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت : حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی وفات سے تقریبًا دو ہفتے قبل١٣٩٦ھ میں ابا جان رحمہ اللہ مکہ معظمہ آگئے ،پھر ایک سال بعد ہم لوگوں کو بھی بلا لیا اور مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فرمایا:''اللہ تعالی نے میری علمی مدد کے لیے مولانا عاشق الہی صاحب کو مدینہ بھیج دیا ہے ''چنانچہ حضر ت کے حکم سے کئی کتابیں تالیف فرمائیں ،جن میں سب سے پہلی ''حقوق الوالدین ''تھی ، چھبیس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا ، اس طویل عرصہ میں فقہ وحدیث کی کتابیں پڑھانے کے علاوہ بڑی تعدادمیں دینی ، علمی اور اصلاحی کتابیں تصنیف فرمائیں ، آخر میں تفسیر ''انوار البیان فی کشف اسرار القرآن'' تالیف فرمائی، جس کی تالیف میں تقریبًادس سال کا عرصہ لگا اور ٩جلدوں میں شائع ہوئی ،اس کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے ،فرانسیسی ،ہندی اور بنگلہ ترجمہ جاری ہے ،اللہ تعالی پایہ تکمیل تک پہنچائے ،آمین۔ اب ذیل میں حضرت والد ماجد رحمہ اللہ کی بعض خصوصیات اور اوصاف واخلاق کاتذکرہ کر رہا ہوں ،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اولیا ء کی جماعت میں شامل فرمائے،آمین۔ زہد فی الدنیا : دنیا میں رہتے ہوئے کبھی دنیا کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا، کبھی ایک ریال بھی جمع نہیں فرمایا جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم فرمادیتے ،کل کیا ہوگا اور آنے والی ضرورت کیسے پوری ہوگی ؟اس کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں ،ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ جب جیب خالی کردیتا ہوں تو نفس کہتا ہے کہ اب کہاں سے آئے گا ؟تو فورًا دل جواب دیتاہے کہ : اب تک کہاں سے آیا تھا ؟جس رب نے اب تک دیا وہ ہمیشہ دے گا۔ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے کوئی گھروغیرہ نہیں بنایا وفات سے کچھ عرصہ قبل تشکرانہ انداز میں فرمایا : الحمد للہ دنیا