ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
حضرت مو لاناڈاکٹر مفتی عبدا لواحدصاحب) کیا فرماتے ہیں علمائے د ین ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کا موقف یہ ہے کہ : (١) انسان دو چیزو ں کا مرکب ہے۔ایک اس کا روحانی وجود ہے اور ایک حیوانی وجود !(آدمی زادہ طرفہ معجون است ۔ از فرشتہ سر شتہ وزحیوان )...روحانی وجود کا تعلق عالم امر سے ہے اور وہی انسان کے عز وشر ف کی اصل بنیاد ہے ، الفاظ قرآنی ''فاذا سو یتہ ونفحت فیہ من روحی''میں ا سی ر وحا نی وجود طرف اشارہ ہے جبکہ حیوانی وجود ارتقاء کے مختلف مدارج طے کرتاہوا کروڑوںاور اربوں سالوںمیں اس شکل تک پہنچا ہے جسے انسان کہا جاتا ہے ۔عالم امر کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں ہر کام چشم زدن میں ہو جاتا ہے (انما امرہ اذا اراد شیئاان یقول لہ کن فیکون )جبکہ عالم خلق میں ہر شے کو اپنے نقطہ کمال تک پہنچنے میں وقت در کار ہوتا ہے ،جیسا کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میںقرآن حکیم میں صراحت موجود ہے کہ اللہ نے چھ دنوں میں تخلیق فرمایا اور یہ کہ اللہ کا ایک دن انسانی تقویم کے اعتبار سے ایک ہزار برس کے مساوی ہے (وان یوما عندربک کا لف سنة مما تعدون) (٢) وہ شخص ڈارون کے نظریہ ارتقا ء کوصریح گمراہی قرار دیتا ہے لیکن نفس ارتقا ء کا قائل ہے ۔ چنانچہ صاحب ''قصص القرآن ''مو لا نا حفظ الرحمن سیو ہاروی کی ما نند وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس معاملہ میں علم( ارتقا ئ)اور مذہب کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے ۔(حوالہ قصص القرآ ن جلد اول ص١٥)اس شخص کا کہنا ہے کہ انسان کے حیوانی وجود یعنی جسد انسانی کی تخلیق کی ا بتداء مٹی اور پانی کے امتزاج سے ہوئی جیسا کہ سورة السجد ہ میں فرمایا گیا وبدأخلق الانسان من طین ... لیکن جسد انسانی کو موجودہ صورت تک ہزار ہا برس لگے اور اس نے ارتقاء کے مختلف مراحل طے کیے ۔ تخلیق کا یہ تمام عمل اللہ ہی کے حکم سے او ر اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہوا ۔ یہاں تک کہ جب انسان کا حیوانی وجود ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا آج سے قریبًا دس ہزار برس قبل موجودہ صورت تک پہنچاتو اللہ نے اس میں وہ روح ملکوتی پھونکی جس کا تعلق عا لم امر سے ہے اور جسے اللہ نے خود اپنی طرف نسبت دی ہے (ونفخت فیہ من روحی )۔اسی فرد کانام حضرت آدم ہے جو روئے ارضی پر پہلے انسان تھے ۔ اس شخص کا کہنا کہ سورةالاعراف کی آیت ١١ : ''ولقد خلقنکم ثم صورنا کم ثم قلنا للملئکة اسجد وا لادم''اور سورةنوح کی آیت ١٧ ''واللّٰہ انبتکم من الارض نباتا''سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ۔ (٣) وہ شخص اسلاف کی تشریحات کے مطابق درس قرآن بھی دیتا ہے اور اس کے درس کی ا ثر پذیری بھی نمایاں طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ وہ اس بات کا شدت کے ساتھ قائل ہے کہ اسلامی قانون و شریعت میں قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ حدیث و سنت رسولۖ کو بھی