ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
لفظِ''وہابی ''ہندوستانی زبان کی ڈکشنری میں انیسویں صدی میں داخل کیا گیا اور اس مذہبی لفظ سے وہ سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے جو لاکھوں انسانوں کی قربانی اور اربوں روپے کے خرچ کرنے سے بھی حاصل نہیں ہو سکتے تھے ، اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا کہ یہ لوگ محمد بن عبد الوہاب کے پیر و ہیں ، محمد بن عبدالوہاب کون تھے ؟ ان کی پیروی کیوں جرم ہوئی؟ اس کا انتہائی مختصر بیان یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نجد کے ایک حنبلی المسلک عالم تھے اور اپنے زمانہ میںہمہ گیر دعوت اصلاح لے کر اُٹھے تھے ،ان کی دعوت میں شدت تھی جس کی وجہ سے کسی قدر جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے تھے ۔ اُنہوں نے اتباع سنت کے خیال سے کچھ کام ایسے کیے جو علماء وعوا م کے لیے باعثِ اشتعال بنے اور اُ نھیں اس پر بہت بُرا کہا گیا او ر یہیں سے یہ سلسلہ چل نکلا کہ جو ان کی دعوت اصلاح سے متفق ہو تا اُسے وہابی کہہ دیا جاتا ، ہندوستان میں انگریزی حکومت نے اس سے خوب فائدہ اُٹھایا اور جو علما ء انگریزکی مخالفت کرتے تھے ان پر اپنے چند زر خریدافراد سے وہابیت کا فتوٰی لگواکر انہیں عوام میں بدنام کرنا شروع کر دیا ۔انگریز پرو پیگنڈہ کا استاد ہے لہٰذا اس کا یہ حربہ کامیاب ہوا اور لفظ وہابی ایک مذہبی صفحہ نمبر 52 کی عبارت گالی بن گیا جس کی عوام میں وقعت ختم کرنی ہو اسے وہابی کہہ دینا کافی ہے اور اس میں یہاں تک غلو ہو گیا کہ مسلم غیر مسلم کی بھی تفریق نہیں رہی ،مولانا حضرت حفیظ الرحمن واصف نے ایک ہندو بنیے پروہابی کے فتوٰی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے ملاحظہ فرمائیں : ''اس لفظ کی تاثیرپر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ۔بطور جملہ معترضہ کے اس کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ۔ایک گائوںکی مسجد کے امام صاحب ایک ہندو بنیے سے اُدھار سودا لیا کرتے تھے۔ تھوڑا بہت قرضہ ادا بھی کردیتے تھے ۔ جب بقایازیادہ ہو گئی تو بنیے نے سودا دینا موقوف کردیا۔امام جی نے پہلے تو خوشامد کی ۔ جب نہیں مانا تو کہا ۔دیکھو لالہ جی! تمھاری دکان کو نقصان پہنچے گا !مسلم اکثریت کا گائوں تھا ۔اور لالہ جی کے خریدار سب مسلمان ہی تھے ۔امام جی نے نمازکے بعد نمازیوں سے خطاب کیا اور کہا ۔ ''دیکھو بھائیو! فلاں لالہ سے سودا ہرگز نہ خریدنا،یہ وہابی ہو گیا ہے '' بس پھر کیا تھا یہ خبر آنًافانًا بجلی کی طرح دوڑ گئی ۔لالہ جی کی دکان پر اُلّو بولنے لگا ۔ صبح سے شام تک بیٹھے مکھیاں مار تے رہتے ۔جب کئی دن ہو گئے۔اس کو بڑا فکر لا حق ہو ا ۔تحقیق و جستجو کے بعد اصل بات معلوم ہوئی توضروری سامان (آٹادال وغیرہ ) لے کر ملاجی کے پاس آیا اور کہا کہ ملا جی تم جتنا چاہو سامان لے لیا کرو ۔جب ملا جی را ضی ہو گئے تو ایک روز نمازیوں سے خطاب کرکے کہا کہ ''دیکھنا بھائیو! وہ لالہ میرے پاس آیا تھا اس نے توبہ کرلی ہے اب اس سے سود ا لے لیا کرو ۔لوگ مطمئن ہو گئے اوراس کی د کان پھر چل پڑی۔''