ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
السلام علیکم ورحمةاللہ فتوے کے اسلوب سے کچھ ہٹ کر جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ ماشاء اللہ آپ کے نام کے یعنی فرقان اور دانش تقاضا کرتے ہیں کہ عقل ودانش سے کام لے کر حق و باطل کے درمیان فرقان کے نتیجہ تک پہنچنے میں کوتاہی اور بخل سے کا م نہ لیا جائے ۔ یہ استفتا ء چونکہ قرآن اکیڈمی سے بھیجا گیا ہے اور جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان سے بھی یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جس شخص کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ہیں ۔اگرچہ قرآن اور نظریہ ارتقا ء کے عنوان پر ڈاکٹر اسرار صاحب کی ٹیپ بھی موجود ہے لیکن میں نے اس عنوان سے ان کی تقریر آج سے تقریبًا تیس سال پہلے بھی سنی تھی ۔ اس وقت ہم ایم بی بی ایس کے طالب علم ہونے کے ناطے اور کچھ ڈاکٹر صاحب کے زور بیان سے متاثرہونے کی وجہ سے ان کے نیاز مندتھے اور اسی نیاز مندی میں کچھ سائنسی (حیاتیاتی) اور کچھ قرآنی شواہد کی بناء پر نظریۂ ارتقا ء کے غلط ہونے کے بارے میں ایک تحریرلکھ کر دی تھی ۔ڈاکٹر اسرار صاحب کے منابع فہم قرآن میں سے ایک ڈاکٹر رفیع الدین صاحب بھی تھے ۔خود ڈاکٹر اسرار صاحب لکھتے ہیں : ''اور الحمد للہ کہ ان دروس و خطابات کے ذریعے قرآن کے جس فہم و فکر کی اشاعت ہو رہی ہے وہ کسی ایک لکیر کے فقیر کے کنویں کے مینڈک کی مانند نہیں ہے بلکہ اس میں کم ازکم چار منبعوں سے پھوٹنے والے سوتوں کا قرآن السعد اء موجود ہے یعنی ...................................................................................................................... دوسرے : ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی جدید فلسفہ و سائنس اور جدید سیا سیات و اقتصادیات کے ضمن میں تنقیدی بصیرت...(جماعت شیخ الہند اورتنظیم اسلامی ص٢٤) ڈاکٹر اسرار صاحب نے ہماری نیاز مند ی کے جواب میں اپنی کمال بے نیازی سے فرمایا کہ تمہارا سائنسی اشکالات تو بے بنیاد ہیں (لہٰذا وہ تو ان کی کمال بے نیا زی کے آگے فورًا ڈھیر ہوگئے )اور قرآنی شواہد کے بارے میںفرمایا کہ میں ان پر غور کروں گا ۔ وہ دن اور آج کا دن ہمیں آج تک اس کا جواب نہیں ملا ۔ آج سے تقریبًا بارہ سال پہلے ہماری کتاب ''ڈاکٹر اسرار احمد کے افکارو نظریات ۔تنقید کی میزان میں'' شائع ہوئی جس سے ڈاکٹر اسرار صاحب پوری طرح آگاہ ہیںاورانہوں نے اس کتاب کو دیکھا بھی ہے اس کتاب میںنظریۂ ارتقاء پر مکمل بحث کی ہے اور ڈاکٹر اسرار صاحب کے دلائل کا جواب بھی دیا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب غالبًا غور کرنے کی زحمت ہی نہیں اٹھانا چاہتے ۔ اگر ہماری باتیں غلط تھیں تو کیا ہمیں اس قابل بھی نہ سمجھاکہ ہماری اصلاح ہی کا سوچ لیتے اگر ہماری یہ کتاب آپ کی نظر سے گزری ہے تو آپ کا استفتاء تعجب خیز ہے اور اگر نہیں گزری توآپ کو اس کا مطالعہ دانش و فرقان کے تقاضے کے طور پر ضرور کرنا چاہیے۔ اس سمع خرا شی کے بعد عرض ہے : (١) آپ کا سوال ہے کہ کیا ایسے شخص کے عقائدکو اہل السنة والجماعة سے خارج قرار دیا جا سکتاہے ۔