دیکھنے والی آنکھ ہو تو ہر شے میں اللہ نظر آتا ہے،اور ہر تغیّر اور حوادث میں اُسے خلّاقِ عالَم کی قدرتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے ؏
اِنقلاباتِ جہاں واعظِ ربّ ہیں سُن لو……ہر تغیّر سے صدا آتی ہےفَافْہَمْ فَافْہَمْ
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ﴾وہی اللہ رات اور دن کا اُلٹ پھیر کرتا ہے۔یقیناً ان سب باتوں میں اُن لوگوں کیلئے نصیحت کا سامان ہے جن کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔(النّور:44، آسان ترجمہ قرآن)
مفسّرِ قرآن علّامہ ابنِ کثیراس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:”أَيْ: يَتَصَرَّفُ فِيهِمَا، فَيَأْخُذُ مِنْ طُولِ هَذَا فِي قِصَرِ هَذَا حَتَّى يَعْتَدِلَا ثُمَّ يَأْخُذُ مِنْ هَذَا فِي هَذَا، فَيَطُولُ الَّذِي كَانَ قَصِيرًا، وَيَقْصُرُ الَّذِي كَانَ طَوِيلًا. وَاللَّهُ هُوَ الْمُتَصَرِّفُ فِي ذَلِكَ بِأَمْرِهِ وَقَهْرِهِ وَعِزَّتِهِ وَعِلْمِهِ“یعنی اللہ تعالیٰ دن اور رات میں تصرّف کرتا ہے،چنانچہ ایک کو لمبا اور دوسرے کو چھوٹا کرتا ہے جس سے رات اور دن دونوں مُعتدل ہوجاتے ہیں ، پھر جو چھوٹا تھا وہ لمبا ہونا اور جو لمبا تھا وہ چھوٹا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اور اللہ ہی اپنے حکم ، اپنی طاقت ، غلبہ اور اپنے علم سے اِن( دنوں اور راتوں)میں تصرّف اور تبدیلی کرنے والا ہے۔(تفسیر ابن کثیر:6/73)
لہٰذا ایک اِنسان کا کام یہ ہے کہ وہ سردی کے موسم میں جبکہ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں ،ان میں غور و تدبّر کرکے عبرت حاصل کرے اور اس کے ذریعہ