کررہے ہوتے ہیں لیکن سردی کے مختصر ایّام میں اُن کے اندر روزہ رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔
فقہاء کرامنے لکھا ہے:”أَيْ عَجْزًا مُسْتَمِرًّا كَمَا يَأْتِي، أَمَّا لَوْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَيْهِ لِشِدَّةِ الْحَرِّ كَانَ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ وَيَقْضِيَهُ فِي الشِّتَاءِ“ روزہ کا فدیہ وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے سے دائمی طور پر عاجز ہو ،پس اگر دائمی طور پر عاجز نہ ہو مثلاً گرمی کی شدّت(اور اس کے ایّام کے طویل ہونے) کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو لیکن سردی میں اُس کیلئے قضاء کرنے کی طاقت ہو تو اُسے سردی میں روزے رکھنا چاہیئے ۔(ردّ المحتار:2/427)(فتح القدیر:2/357)
سردی کے موسم میں کی جانے والی کوتاہیاں:
سردی کے موسم کے بارے میں ذکر کیے جانے والے آداب و مسائل سے معلوم ہوتا ہے ہمارے اندر سردی کے موسم میں مندرجہ ذیل کوتاہیاں پائی جاتی ہے:
(1)موسم کو کوسنا اور ناشکری اور بے صبری کے کلمات کا زبان پر لانا۔(2)سردی کے اصل مقصد یعنی جہنّم کے طبقہ زمہریر کی ٹھنڈک کو فراموش کردینا۔ (3)سردی سے بچاؤ کے اسباب اختیار نہ کرنا۔(4)نادار اور مفلس لوگوں کا خیال نہ رکھنا ۔(5)عبادت اور آخرت کی تیاری کیلئے سردی کے اہم اور قیمتی موسم کو ضائع کردینا۔(6)وضو وغیرہ میں بے احتیاطی کی وجہ سے ایڑیاں یا کہنیاں خشک رہ جانا۔(7)سردی کی وجہ سے جسم پر اِس طرح کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھنا جس سے اِنسان بےدست و پا ہوجائے۔(8)سردی کی وجہ سے چادر یا رُومال وغیرہ سے مُنہ