کے بڑے بڑے ذخیرے جمع کیے جاسکتے ہیں،چنانچہ حدیث میں ہے،حضرت ابوسعید خدرینبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”الشِّتَاءُ رَبِيعُ الْمُؤْمِنِ قَصُرَ نَهَارُهُ فَصَامَ وَطَالَ لَيْلُهُ فَقَامَ“سردی کا موسم مؤمن کیلئے بہار کا موسم ہے،(چنانچہ)اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور راتیں طویل ہوتی ہیں جس میں وہ قیام کرتا (تہجّد پڑھتا)ہے۔(سنن کبریٰ بیہقی:8456)
حضرت عمر بن خطابفرماتے ہیں :”الشِّتَاءُ غَنِيمَةُ الْعَابِدِيْنَ“سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کیلئے غنیمت(لوٹنے کا موسم) ہے۔(حلیۃ الأولیاء:1/51)
حضرت معاذ بن جبلنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”قُلُوبُ بَنِي آدَمَ تَلِيْنُ فِي الشِّتَاءِ، وَذَلِكَ لِأَنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ طِيْنٍ، وَالطِّيْنُ يَلِينُ فِي الشِّتَاءِ“سردیوں میں بنی آدم کے نَرم ہوتے ہیں اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمکومٹی سے پیدا کیا اور مٹی سردیوں میں نَرم ہوجاتی ہے۔(حلیۃ الأولیاء:5/216)
سردی کے موسم میں اگرچہ ٹھنڈی اور سرد ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں،پانی بھی سخت ٹھنڈا ہوجاتا ہے جس میں ہاتھ لگانے کا بھی دل نہیں کرتا،چنانچہ نمازوں میں بار بار وضو کرنا نفس پر شاق گزرتا ہے،ٹھٹھرتی راتوں کو اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا کسی بڑے معرِکہ سے کم معلوم نہیں ہوتا،پھر تہجّد میں یا فجر کی نماز میں نرم اور گرم بستروں کو چھوڑ کر مسجدوں کی جانب جانا اور اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ،لیکن اس سب کے باوجود اللہ تبارَک و