تمہارا ىہ گمان ہے کہ وہ توبہ کو قبول نہ کرىں گے بھلا ان کے متعلق ىہ گمان کىسے ہوسکتا ہے ،اس جہل کو نکالو اور توبہ سے مت رکو کہ صاحب! ہمارے گناہ بہت بڑے ہىں، ارے صاحب! تمہارے گناہ تو کىا بڑے ہوتے تم ہى کہاں کے بڑے ہو وہ گناہ تو تمہارى صفت ہے جو موصوف ہى بڑا نہىں تو صفت کىسے بڑى ہوگى (آثار الحوبہ)
گناہ سے بچنے کا سب سے عمدہ اور آسان طرىقہ ىہ ہے کہ توبہ کرتے رہو ،اس سے دورى گھٹے گى، اس سے محبت بڑھے گى، پھر اس محبت کا اثر ىہ ہوگا گناہ ہى نہ ہوں گے۔
بعض مخصوص سورتوں کے فضائل
فضائل سورہ بقرہ :
یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سورہ ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے،
قرطبی نےحضرت معاویہ رضى اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی)
اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم)
اور آنحضرت نے فرمایا سورہ بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ وافضل حصہ کو کہا جاتا ہے ، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جُلو میں نازل ہوئے ہیں (ابن کثیر از مسند احمد)
اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیت ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف وافضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی )
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورہ بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت ، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہو جائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورہ بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں ، پھر آخر سورہ بقرہ کی تین آیتیں ۔
سورۂ کہف کے فضائل
مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی، مسند احمد میں حضرت ابو الدردا ءرضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے سورہ ٔکہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور کتب مذکورہ میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری روایت میں یہی مضمون سورہ کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرنے کے متعلق منقول ہے اور مسند احمد میں بروایت حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ یہ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورہ کہف کی پہلی اور آخری آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہو جاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے جو اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہو جاتا ہے۔
اور حافظ ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب مختارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا ، اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا ۔
فضائل سورۂ ىٰس
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یسین قلب القرآن، یعنی سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے اور اس حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ جو شخص سورہ یٰسین کو خالص اللہ اور آخرت کے لئے پڑھتا ہے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اس کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو (رواہ احمد وا بوداؤد والنسائی)
امام غزالی نے فرمایا کہ سورۃ یٰسین کو قلب قرآن فرمانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس سورۃ میں قیامت اور حشر و نشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ آئے ہیں اور اصول ایمان میں سے عقیدہ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے۔ خوف آخرت ہی انسان کو عمل صالح کے لئے مستعد کرتا ہے اور وہی اس کو ناجائز خواہشات اور حرام سے روکتا ہے۔ تو جس طرح بدن کی صحت قلب کی صحت پر موقوف ہے اسی طرح ایمان کی صحت فکر آخرت پر موقوف ہے (روح) اور اس سورۃ کا نام جیسا سورہ یٰسین معروف ہے اسی طرح ایک حدیث میں اس کا نام عظیمہ بھی آیا ہے (اخرجہ ابو نصر اسجزی عن عائشہ ) اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سورۃ کا نام تورات میں معمہ آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی خیرات وبرکات عام کرنے والی۔ اور اس کے پڑھنے والے کا نام شریف آیا ہے اور فرمایا کہ قیامت کے روز اس کی شفاعت قبیلہ ربیعہ کے لوگوں سے زیادہ کے لئے قبول ہوگی۔ (رواہ سعید بن منصور والبیہقی عن حسان بن عطیہ) اور بعض روایات میں اس کا نام مدافعہ بھی آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے سے بلاؤں کو دفع کرنے والی اور بعض میں اس کا نام قاضیہ بھی مذکور ہے، یعنی حاجات کو پورا کرنے والی۔ (روح المعانی)
اور حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ جس مرنے والے کے پاس سورۃ یٰسین پڑھی جائے تو اس کی موت کے وقت آسانی ہو جاتی ہے۔ (رواہ الدیلمی وابن حبان، مظہری)
اور حضرت عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ جو شخص سورۃ یٰسین کو اپنی حاجت کے آگے کر دے تو اس کی حاجت پوری ہو جاتی ہے۔ (اخرجہ المحاملی فی امالیہ، مظہری)
اور یحییٰ بن کثیر نے فرمایا کہ جو شخص صبح کو سورہ یٰسین پڑھ لے وہ شام تک خوشی اور آرام سے رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو صبح تک خوشی میں رہے گا۔ اور فرمایا کہ مجھے یہ بات ایسے شخص نے بتلائی ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ (اخرجہ ابن الفریس، مظہری)
فضائل سورۂ دخان
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کی رات میں سورہ دخان پڑھ لے تو صبح کو اس کے گناہ معاف ہو چکے ہوں گے۔ اور حضرت امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے جمعہ کی رات یا دن میں سورہ دخان پڑھ لی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائیں گے۔ (قرطبی بروایت ثعلبی)
فضائل سورۂ واقعہ
ابن کثیر نے بحوالہ ابن عساکر ابوظبیہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (کے مرض وفات میں حضرت عثمان غنی( عیادت کے لئے تشریف لے گئے ، حضرت عثمان( نے پوچھا ما تشتکی (تمہیں کیا تکلیف ہے ) تو فرمایا،ذنوبی (یعنی اپنے گناہوں کی تکلیف ہے ) پھر پوچھا ما تشتھی (یعنی آپ کیا چاہتے ہیں ) تو فرمایا رحمة ربی (یعنی اپنے رب کی رحمت چاہتا ہوں )، پھر حضرت عثمان( نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے کسی طبیب (معالج) کو بلاتا ہوں تو فرمایا الطبیب اَمرضنی (یعنی مجھے طبیب ہی نے بیمار کیا ہے ) پھر حضرت عثمان (نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے بیت المال سے کوئی عطیہ بھیج دوں تو فرمایا لا حاجة لی فیھا (مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں) حضرت عثمان (نے فرمایا کہ عطیہ لے لیجئے وہ آپ کے بعد آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا تو فرمایا کہ کیا آپ کو میری لڑکیوں کے بارے میں یہ فکر ہے کہ وہ فقروفاقہ میں مبتلا ہو جائیں گی ، مگر مجھے یہ فکر اس لئے نہیں کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو تاکید کر رکھی ہے کہ ہر رات سورہ واقعہ پڑھا کریں ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے :
من قرا سورة الواقعة کل لیلة لم تصبہ فاقة ابدا (ابن کثیر)