کردے اور مىرى ہر حاجت جس سے تو راضى ہو اس کو پورا فرما دے ، اے سب مہربانوں سے بڑے مہربان۔
جنازے کا بىان
قریب المرگ شخص کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنا
جس شخص پر موت کے آثار واضح ہونے شروع ہو جائیں اس کے پاس موجود ورثا کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنے لا الٰہ الا اللہ کا ورد شروع کردیں، تاکہ ان کو دیکھ کر قریب المرگ شخص بھی لا الٰہ الا اللہ پڑھنا شروع کردے۔نبی اکرم ﷺنے قریب المرگ لوگوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
”تم اپنے قریب الموت (بھائیوں)کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کیاکرو۔“(ترمذی)لا الٰہ الا اللہ کا انسان کا آخری کلام ہونابہت فضیلت کا باعث ہے۔حضرت معاذ بن جبل رضى اللہ عنہ سے روایت ہے ‘
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
”جس شخص کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہو گا وہ جنت میں جائے گا “(ابوداوٴد)
تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کروہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔
جان کنی کے وقت سورہٴ یٰسین کی تلاوت کرنا
قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے، تاکہ اگراُس پر” غَمَرَاتُ الْمَوْت“یعنی موت کی سختیاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:” تم اپنے مرنے والوں پر سورۂ یٰسٓ پڑھا کرو۔“(ابوداوٴد)میت کو غسل دینا
جب انسان فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اُس کی آنکھیں بند کریں‘اس کے ہاتھ سیدھے کریں اور اُس کی ٹانگیں ساتھ جوڑ دیں۔اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم ٹھنڈا ہوکر اکڑ جاتا ہے اور پھر وہ جس حالت میں ہو اسی حالت میں رہتا ہے۔اس کے بعد میت کو غسل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔
میت کو غسل دینے کا طریقہ
غسل دینے والے دوآدمی ہونے چاہئیں‘ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والااور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر میت کو غسل دیں۔سب سے پہلے میت کو کسی تختہ‘جو عموماً مساجد میں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایا جائے۔ پھرپانی میں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیا جائے۔میت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پر کسی کپڑے کو رکھ دیا جائے۔پھر میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایاجائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ میں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر میت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جائے۔پھر میت کو وضو کرایا جائے لیکن منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ کپڑا یا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایا جائے۔اس کے بعد میت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویا جائے۔میت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔میت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویا جائے۔اس کے بعد میت کو خشک کپڑے سے صاف کیا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر میں میت کو کافور یا کوئی اورخوش بو لگائی جائے۔یہ ہے میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔نبی اکرم ﷺکے فرمان کے مطابق میت کو اس طرح تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ رضى اللہ عنہاسے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺکی بیٹی حضرت زینب رضى اللہ عنہا فوت ہوئیں تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
” اس کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا اور کوئی خوش بو لگا لینا۔“(مسلم)
کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائدہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو میت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوش بو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے میت کے جلدی قریب نہیں آتے۔
میت کو غسل دینے کی فضیلت
میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھنا ایک تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ میت کا ورثا کے ذمے حق ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینا فضیلت کا باعث بھی ہے۔احادیث میں میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والے کو گناہوں سے ایسے پاک قرار دیا گیا ہے جیسے نومولود اپنے پیدائش کے دن گناہوں سے پاک صاف ہوتاہے۔حضرت علی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” جس نے میت کو غسل دیا‘اس کو کفن دیا‘اس کو خوش بو لگائی‘اس کو کندھا دیا‘اس پر نماز(جنازہ)پڑھی اور اس کے راز کو ظاہر نہیں کیا جو اس نے دیکھا تو وہ غلطیوں (اور گناہوں) سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے آج ہی جناہے۔“(ابن ماجہ)میت کو کفن پہنانا
میت کو غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے گا۔کفن کے بارے میں نبی اکرم ﷺکی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کاصاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا :
”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفن دیا کرو۔“(ابوداوٴد)
کفن کے بارے میں آپ ﷺکی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
”زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“(ابوداوٴد)مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمیص جب کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمیص دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔
کفن پر دعائیہ کلمات لکھنا کیسا ہے؟
بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرنا نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔
نماز ِجنازہ اداکرنا
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے اداکرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد میں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ سے اس میت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ میت کے حق میں