علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں آیت فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کی تفسیر لکھی ہے: اَیْ بِتَرْکِ مَا سِوَی اللہِ اِلَی اللہِ6؎ غیر اللہ سے بھاگو اللہ کی طرف۔اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرار کا لفظ نازل فرمایا ہے، یہ لفظ نازل فرمانے سے تصوف کا ایک عظیم مسئلہ حل ہوگیا ہے کہ کسی حسین پر نظر نہ ٹکنے پائے، اگر اچانک نظر پڑ جائے تو فوراً ہٹا لو، ایک سیکنڈ بھی مت ٹکاؤ ورنہ اللہ کا فرار کا حکم تمہارے قرار سے بدل جائے گا کیوں کہ تم نے وہاں قرار اختیار کیا، تم وہاں ٹھہر گئے، اللہ کی نافرمانی کی، اس لیے اللہ کا عظیم احسان ہے کہ ہم غلاموں کو فرار کے لفظ سے بتادیا کہ چوں کہ ہم نے حسن میں میگنٹ یعنی مقناطیس رکھا ہے، اگر تم اس میگنٹ کے مقابل رہوگے تو لرزہ بر اندام ہی رہو گے اور میگنٹ تمہیں نچاتا رہے گا، یہ حسین بڑے بڑے داڑھی والوں کو نچا دیتے ہیں، چوں کہ ان پر میگنٹ کا اثر ہے، ان کے عشق میں میگنٹ ہے، لہٰذا ان سے بھاگو، ان کے لیےفَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کا حکم ہے، اس کی تفسیر یہی ہے کہ غیر اللہ سے اللہ کی طرف بھاگو، اگر تم نے کھڑے ہو کر ایک نظر بھی دیکھ لی تو اتنی سی دیر کی حرام لذت بھی اللہ کے یہاں باعثِ غضب و ناراضگی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ قرار تم کو قابلِ فرار ہی نہ رکھے اور تمہارے فرار پر فالج گرادے، کیوں کہ تم نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا اور اللہ کی عطا فرمودہ قوتِ فرار کو استعمال نہیں کیا،جس قوت کو استعمال نہ کیا جائے وہ مفلوج ہوجاتی ہے۔
تو ان حسینوں سے بھاگنا، فرار اختیار کرنا فرض ہے۔ اگر حضرت یوسف علیہ السلام زلیخا کے پاس رات بھر سجدہ میں روتے رہتے تو اللہ تعالیٰ کی مدد نہ آتی،انہوں نے فَفِرُّوۡۤا پر عمل کیا یعنی زلیخا کے پاس سے بھاگے حالاں کہ جانتے تھے کہ دروازے پر تالا لگا ہوا ہے مگر انہوں نے کہا اپنی سی بندگی تو کرلوں، دروازے تک تو چلا جاؤں، جو ہمارے اختیار میں ہے وہ کام تو کرلوں، وہ دروازے تک دوڑ کر گئے تو اللہ کو رحم آگیا اور سارے تالے خود بخود کھلتے چلے گئے۔
ان حسینوں سے بھاگو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور آپ کو اللہ کے نام پر فدا ہونے میں اتنا مزہ آئے گا کہ ساری لیلائیں اگر آپ کو مل جائیں تو بھی آپ وہ مزہ نہیں پاسکتے۔
_____________________________________________
6؎ روح المعانی: 27/25، الذّٰریٰت (50) ،ذکرہ فی الاشارات