پر نہیں۔جب آپ سڑکوں پر جائیں گے اور وہاں گناہ کے مواقع آئیں گے، کوئی عورت راستے سے گزرے اور دل میں اس پر نگاہ ڈالنے کا تقاضا پیدا ہوا پھر آپ نگاہ بچائیں تو اب ترکِ وجودی ہوا کیوں کہ گناہ کرنے کا تقاضا موجود ہے لیکن آپ اس کو ترک کررہے ہیں، اصطلاح میں اس کا نام ترکِ وجودی ہے، یعنی گناہ کا تقاضا موجود ہے مگر آپ اس موجود کو ترک کررہے ہیں لہٰذا ترکِ وجودی پر اجر ملے گا۔
اور حضرت حکیم الامت ترکِ عدمی کی مثال بیان فرماتے ہیں کہ آپ کے کمرے میں قالین بچھا ہوا ہے اور قالین کہے کہ میں تو کسی کو نہیں دیکھتا تو کیا قالین کو اجر ملے گا؟ کیوں کہ اس کے پاس ترکِ عدمی ہے یعنی قالین کے اندر گناہوں کے تقاضے کا وجود نہیں ہے لہٰذا وہ گناہوں سے کیا بچے گا۔ تو گناہوں کے تقاضے سے گھبرانا نہیں چاہیے، جب دل میں گناہ کا خوب تقاضا پیدا ہو تو سمجھ لو کہ اب تقویٰ کی دولت لوٹنے کا زمانہ آگیا، تقویٰ کی دولت لوٹنے کا موسم بہار آگیا۔
مجاہدہ کی شکستگی کی تعمیر کے اجزا
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مُجَاہَدَہْ پر ہدایت کے انعام کا وعدہ فرمایا ہے کہ جو مُجَاہَدَہْ کرے گا،وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا7 ؎ جو لوگ ہمارے راستے میں محنت کرتےہیں، تکلیف اٹھاتے ہیں ہم اس کے لیے ہدایت کے راستے کھولتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا مجاہدہ دنیاوی لحاظ سے کتنا ہی کامل ہو مگر اللہ کے سامنے ناقص ہے کیوں کہ انسان بذاتِ خود ناقص ہے،انسان سے جو فعل صادر ہوگا وہ بھی ناقص ہوگا اور اللہ کامل ہے اس سے جو فعل صادر ہوگا وہ کامل ہوگا لہٰذا ہمیں ناقص مجاہدہ، ٹوٹی پھوٹی کوشش ہی شروع کردینی چاہیے اور جب کبھی اس کوشش میں کمی ہوجائے، کوئی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے تو ہمارے مجاہدہ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کہاں ہوگی؟ مثلاً کبھی نگاہ گڑ بڑہوگئی، کبھی کان سے غلطی صادر ہوگئی، اس کا نام ہے ٹوٹ پھوٹ۔ کیوں صاحب جب مالک مکان کرائے پر دیتا ہے تو کرائے دار سے کہتا ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت بھی تمہارے ذمے ہے۔
_____________________________________________
7؎ العنکبوت:69