نہیں پہنچ سکا،خصوصاً جب غیرمقصود اور غیر منزل میں کچھ کشش بھی ہو تو آدمی وہاں تماشا دیکھنے لگ جاتا ہے۔
ہدایت کا دوسرا مفہوم ہے اَلْاِیْصَالُ اِلَی الْمَطْلُوْبِکہنزل تک پہنچادے،یہ درجۂ کمال ہے۔ تو ہدایت کے دو مفہوم ہوئے، ایک تو صرف راستہ دکھادینا اور دوسرا منزل تک پہنچادینا۔ایصال مصدربمعنیٰ فاعل ہے،یہاں ایصال بمعنیٰ موصِل کے ہیں یعنی پہنچانے والا،ایصال کو مطلوب کردیا، مطلب یہ ہوا کہ جو ہادی ہوگا وہی موصِل بھی ہوگا،چوں کہ یہاں ہادی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا ایصال کی نسبت بھی ان ہی کی طرف ہوگی اور ہادی بمعنیٰ موصِل الی المطلوب کے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہدایت کا کامل درجہ عطا فرماتے ہیں تو یہ محض ان کے کرم ہی سے عطا ہوتی ہے، کیوں کہ ہماری محنت اور مزدوری ناقص ہوتی ہے، لیکن اللہ کی ذات کامل ہے اور کامل کے لیے عطائے ناقص اس کی شان کے خلاف ہے۔
مشایخ میں سے کسی بڑے بزرگ نے لکھا ہے کہ ایک سخی آدمی تھا۔ سخاوت پر ایک بات اچانک یادآگئی، حاتم طائی کا قصہ تو آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی سخاوت میں حاتم طائی ہے۔ ہم لوگ اسکولوں میں چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھا کرتے تھے، اس میں حاتم طائی کے قصے آتے تھے، حاتم طائی عرب کے رہنے والے تھے، ان کے بیٹے حضرت عدی ابنِ حاتم رضی اللہ عنہ صحابی تھے،یہ مدینے میں اسلام لائے تھے، ان کے اسلام لانے کا واقعہ عجیب و غریب ہے،یہ نبوت اور بادشاہت میں فرق سمجھنے کے لیےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ آیا یہ بادشاہ ہیں یا نبی ہیں، اس فرق کی تلاش کا تجسس انہیں بارگاہِ نبوت تک لے آیا۔
اعمال کی ناقص ادائیگی پر عطائے کامل
جیسے ہی عدی ابنِ حاتم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے، وہ ہماری ہدایت کے لیے خود ہی انتظام فرماتے ہیں، ہمارا تو خالی نام ہوتا ہے، اگر تھوڑی سی فکر ہوجائے تو ہماری ہدایت کے لیے اللہ کی رحمت کے ہاتھ بڑھے ہوئے ہیں، ہمیں