گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ ہیں یا نبی؟ ان پر شان نبوت کی ہے یا سلطنت کی ہے؟ بادشاہت اورنبوت میں فرق دیکھنے گئے تھے۔ بعض وقت آدمی کے ہاتھ دولت اور خزانہ یوں آتا ہے کہ اسے پتا بھی نہیں چلتا ۔ تو جیسے ہی یہ مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے ایک ستر برس کی بہت غریب بڑھیا، کپڑے میں پیوند لگے ہوئے، نہایت معمولی چادروں میں، گوشت کو سکھاکر کھانے والی، جس کی معاشرے میں کوئی وقعت اور عزت نہیں تھی لنگڑاتے ہوئے پہنچی۔ اس وقت اس مجمع میں رسولِ خدا مثل شمع اور آفتاب بیٹھے ہیں اور صحابہ مثل پروانے مسجدِنبوی میں بیٹھے ہیں اور قیصر وکسریٰ کے بڑے بڑے سفراء اور دوسرے ملکوں کے بڑے بڑے معزز لوگ بھی موجود ہیں۔اس وقت وہ غریب بڑھیا کہتی ہے کہ اے خدا کے رسول! مجھے تھوڑا سا وقت چاہیے،آپ سے دین کا ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت مجلس سے اٹھتے ہیں جس میں بڑے بڑے سفراء اور وزیر موجود تھے جنہیں اس وقت کی دنیاوی عزتیں حاصل تھیں۔ اتنے بڑے مجمع سے نکل کر آپ مدینے کی ایک معمولی سی گلی میں جو موزیک کا فرش یا آج کل کی سیمنٹ والا روڈ نہیں تھا، اس ٹوٹی پھوٹی گلی میں زمین پر بیٹھ کر کے جو بات اس نے پوچھی آپ نے اس کا جواب دیا اور پھر آکر اعلان فرمایا کہ مدینہ کا غریب سے غریب غلام، غریب سے غریب لونڈی اور مسکین سے مسکین آدمی جس کو کوئی نہ پوچھتا ہو، دنیاوی لحاظ سے نہایت حقیر ہو لیکن وہ جس وقت چاہے، مدینے کی جس گلی میں چاہے مجھے روک کر مسئلہ پوچھ سکتا ہے۔حضرت عدی ابنِ حاتم یہ دیکھ کر اسی وقت ایمان لے آئے کہ بے شک یہ مقام نبوت ہے، نبی کے اندر ہی ایسی تواضع اور ایسی خاکساری ہوسکتی ہے، اپنے کو ایسا مٹانا بادشاہوں کے بس کی بات نہیں، بادشاہوں میں تو بہت غرور اور پندار ہوتا ہے۔
مجاہدہ کی شرح
اب میں لفظ مُجَاہَدَہْ کی شرح عرض کرتا ہوں۔ مُجَاہَدَہْ باب مُفَاعَلَۃْسے ہے جس کے معنیٰ ہیں نفس آپ سے لڑے گا اور آپ نفس سےلڑیں گے، یک طرفہ معاملہ نہیں ہوگا کہ آپ جو کہہ دیں نفس مان لے اور آپ کو کچھ نہ ستائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب مجھے ایسا نسخہ بتائیے، کوئی ایسا وظیفہ بتائیے جس کو پڑھ لوں تو گناہ کا خیال ہی نہ آئے اور میں