یا برتن لےجاؤں گا تو ان کی سخاوت کا امتحان کیسے ہوگا؟ لہٰذا چھانٹ کر انتخاب کرکے سب سے بڑا پیالہ لے کر اس سخی کے یہاں گیا۔ سخی نے پوچھا کیسے آئے ہو؟ اس نے کہا کہ شہد لینے آیا ہوں، سنا ہے آپ بڑے سخی ہیں، مجھے شہد کی ضرورت ہے، حکماء اور ڈاکٹروں نے شہد پینے کو بتایا ہے، اس لیے میں بڑی بوتل لایا ہوں، سنا ہے کہ آپ بہت سخی ہیں اس لیے آپ کی شان کے خلاف چھوٹا برتن نہیں لایا۔ سخی نے بوتل لی اور گھر کے اندر گیا، وہاں شہد کی مشک رکھی ہوئی تھی۔پہلے زمانے میں مشک میں پانی بھرا جاتا ہے،وہ انسان کے برابر ہوتی تھی،بڑی مشک پورے بیل کی کھال سے بناتے تھے اور اگر بہت بڑا سانڈ ہو تو اس کی مشک بھی بڑی ہوتی تھی، جس میں نہ جانے کتنے من شہد آجاتا تھا۔اس سخی کے گھر میں ایسی ہی ایک مشک ٹنگی ہوئی تھی،اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ یہ شخص بوتل لایا ہے، اس کو مشک میں شہد بھر کےدےدو اور اس کی بوتل بھی واپس کردو۔ ملازم نے کہا کہ حضور! وہ تو اپنی عقل سے چھانٹ کر بڑی سی بوتل لایا ہے، جب وہ بوتل بھر شہد مانگتا ہے تو آپ اتنا زیادہ کیوں دے رہے ہیں؟ اس کریم نے کہا کہ اس کا سوال اور اس کا برتن اس کی قابلیت کے اعتبار سے ہے اور میری عطا اور میری سخاوت میری قابلیت کے اعتبار سے ہے، ہم اس کی قابلیت کے لحاظ سے اس کو نہیں دیں گے اپنی قابلیت سے اس کو عطا کریں گے، جتنا خدا نے مجھے کرم اور سخاوت کا مادہ اور صلاحیت بخشی ہے اسی لحاظ سے اس کو دیں گے۔
بارگاہِ الٰہی میں اہل اللہ کا سیلِ اشکِ رواں
جب اللہ کے بندوں میں کرم کی یہ شان ہے، جس کی مخلوق کےکرم میں یہ خاصیت ہو کہ بوتل لے جاؤ تو مشک بھر مل جائے تو خود اللہ تعالیٰ جو سخاوت اور کرم کے خالق ہیں ان کی کیا شان ہوگی۔اگر آپ اللہ کے راستے میں ٹوٹی پھوٹی محنت بھی کرلیں گے تو ان شاء اللہ! بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو ولی اللہ بنالیں گے۔ اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر یاد آیا فرمایا کرتے تھے ؎
میں سمجھتا تھا مجھے ان کی طلب ہے اصغر ؔ
کیا خبر تھی وہی لے لیں گے سراپا مجھ کو
جگرمرادآبادی بہت مشہور آل انڈیا شاعر تھے، اصغرگونڈوی ان کے استاد تھے،یہ تہجد گزار