Deobandi Books

محبت الہیہ کے ثمرات

ہم نوٹ :

10 - 38
وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَ الْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ
وَ الْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ3؎
’’جو لوگ میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے آپس میں بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں میری محبت ان کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۴۲۶)
اور محبت کہاں ہوتی ہے؟ کان میں یا  ناک میں نہیں ہوتی ہے، دل میں ہوتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ دل ملاکر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مُحِبِّیْنْ کو مقدم فرمایا، مُتَجَالِسِیْنْ کو بعد میں بیان فرمایا۔ آپ مجلس میں بیٹھے ہیں یہ ثانوی درجہ ہے، جو اللہ کے لیے آپس میں بیٹھتے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کرے گا، مگر اس کا درجہ کم ہے، یہ دوسرے درجے میں ہے۔اوّل درجہ ان کا ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جو آپس میں میرے لیے محبت کرتے ہیں ان کو ہم اپنی محبت دینا واجب کردیتے ہیں۔ معلوم ہوا جس کے پاس آپ جاتے ہیں دل میں اس کی محبت بھی ہوتی ہے۔ خدا کی محبت تو ہے ہی لیکن جب خدا کی محبت سِکھانے والے کی محبت ہوتی ہے تب ہی تو کوئی کورنگی سے آرہا ہے،کوئی اورنگی سے آرہا ہے، بیسیوں میل دور دور سے لوگ آرہے ہیں، اسی محبت کی وجہ سے کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں،یہ مجمع یہاں قریب میں نہیں رہتا ہے۔ محبت وہ چیز ہے دوستو کہ لوگ  ہزاروں ہزاروں میل دور سے پہنچتے ہیں۔
دیو بند سے گنگوہ تقریباً بیس میل دور ہے، شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہر ہفتے بیس میل پیدل جاتے تھے اور بیس میل واپس آتے تھے، چالیس میل کا سفر کرتے تھے۔اس زمانے میں ویگن، بسیں وغیرہ جیسی  سواریاں نہیں تھیں۔ ایک دفعہ ایک ہندو نے کہا کہ مولوی جی کہاں جارہے ہو؟کہا گنگوہ جارہا ہوں۔ پوچھا گنگوہ کیوں جاتے ہو؟ حضرت نے فرمایا کہ ظالم تو کیا جانے کہ اللہ والوں کے پاس کیا ملتا ہے ؟  ؎
_____________________________________________
3؎   کنز العمال:9/8(24607) ،باب فی ترغیب الصحبۃ،مؤسسۃ الرسالۃ
Flag Counter