آثار محبت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
سوچتے ہیں کہ جب پاک ہوجاؤں گا تب جاؤں گا، ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس حالت میں ہو چلے جاؤ۔ ناپاک ہو تو دریا میں کود جاؤ، دریا خود پاک کر دے گا، اس کا انتظار نہ کرو کہ جب پاک ہوجاؤں گا تب دریا میں کودوں گا، پھر تو قیامت تک ناپاک ہی رہو گے۔ غالب نے کہا تھا ؎کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی دامت برکاتہم اکابر اولیاء میں شمار کیے جاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اس شعر سے مایوسی پیدا ہوتی ہے کہ گناہ گار آدمی کعبہ کیسے جائے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں اس شعر کی اصلاح کرتا ہوں، اس شعر کو مسلمان کررہا ہوں ؎میں اسی منہ سے کعبہ جاؤں گا شرم کو اپنی خاک میں ملاؤں گا ان کو رو رو کے میں مناؤں گا اپنی بگڑی کو یوں بناؤں گا اس کو شعر کہتے ہیں، یہ ہیں اللہ والے۔ اللہ والوں کے کلام میں اور دنیاوی شاعروں کے کلام میں زمین آسمان کا فرق پاؤ گے۔ تو جگر صاحب نے حضرت تھانوی سے عرض کیا کہ حضرت! جگر گناہ گار ہے، آپ اس کے لیے چار دعا ئیں کردیں۔ نمبر ایک حج کر آئے، نمبر دو داڑھی رکھ لے، نمبرتین شراب چھوٹ جائے اور نمبرچار میدانِ محشر میں جگر رسوا نہ ہو، اس کی مغفرت ہوجائے۔ حضرت نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ جب جگر صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شراب چھوڑد ی اور بیمار پڑگئے۔ یوپی کے ماہرین ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا، بڑے بڑے ڈاکٹر پہنچ گئے کیوں کہ جگر بہت ہی معزز آل انڈیا شاعر تھے، ڈاکٹروں کے بورڈ نے فیصلہ کیا کہ جگر صاحب دوبارہ شراب شروع کردیجیے، اگر دوبارہ شراب نہیں پئیں گے تو آپ دنیا سے جلد رخصت ہوجائیں گے، آپ کی جان بہت قیمتی ہے کیوں کہ آپ سلطانِ غزل ہیں، غزل کے بادشاہ ہیں۔