Deobandi Books

دار فانی میں آخرت کی تیاری

ہم نوٹ :

28 - 34
ہوگئی ہو تو وہ اس کی گردن میں تعویذ باندھ دے اور بھینس اچھی ہوجائے، پیر کا یہ کام نہیں ہے کہ بھینس بھینسے کے پاس نہیں جارہی تو کوئی تعویذ دے دے تاکہ بھینس دیوانی ہوکر بھینسے کے پاس چلی جائے، پیر کا یہ کام نہیں ہے کہ تمہارے کاروبار میں، دوکان میں جاکر پھونک مار دے اور تمہارا کاروبار چلنے لگے۔ پیر کا کام صرف اللہ کی محبت سکھانا ہے۔
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ کیوں صاحب! آپ نے کبھی مٹھائی والوں سے کپڑا خریدا ہے؟ بتائیے! آپ نے مٹھائی والوں سے کبھی کپڑا خریدا ہے؟ تو اللہ والوں سے اللہ کیوں نہیں مانگتے ہو؟ وہاں صرف دنیا کے لیے دعا کی درخواست کرنے جاتے ہو۔ اﷲ والوں سے دعا کرانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، دعا کرانا تو اپنے چھوٹوں سے بھی سنت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا  کہ اے عمر! تم عمرہ کرنے جارہے ہو اَشرِکْنَا فِیْ دُعَائِک،8؎ اے عمر! اپنے پیغمبر کو دعا میں یاد رکھنا۔ تو دعا کی درخواست تو ہم اپنے چھوٹوں سے بھی کریں گے، ہم آپ لوگوں کے لیے دعا بھی مانگتے ہیں اور آپ لوگوں سے دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں، میری عافیت و صحت کے لیے اور میرا اللہ والا بننے کے لیے اور میری ایمان پر موت کے لیے اور میری قیامت کے دن بے حساب مغفرت کے لیے اور نیک لوگوں میں داخلہ کے لیے آپ ہمارے لیے دعا کریں اور میں آپ کے لیے دعا کروں گا لیکن پیر کے پاس سوائے دعا مانگنے کے اور کوئی اختیار نہیں ہے جو لوگ پیر کو اتنا بااختیار سمجھتے ہیں کہ اگر پیر ہاتھ اُٹھالے تو ہمارا ہر کام بن جائے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ابوطالب کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا تھے، آپ نے کتنی دعائیں مانگیں ان کو تو ضرور ایمان نصیب ہوجاتا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ اﷲ والوں کی  دعائیں اور لوگوں کی بنسبت جلد قبول ہوجاتی ہیں لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ جو مانگیں گے وہ ضرور ہی پورا ہوگا ایسا عقیدہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔
سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شرابی کا منہ دھو یا، وہ شراب پی کر اپنی ہی قے میں پڑا ہوا تھا اور اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں، جب سلطان ابراہیم ابن
_____________________________________________
8؎ سبل الہدی والرشاد:  11/264،الباب الثامن فی فضائل امیر المؤمنین عمر بن الخطاب،قاہرۃ 
Flag Counter