اللہ کی اطاعت میں مخلوق سے نہ ڈریں
دوستو! بات اس پر چل رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت کو سوچو۔ شیر کے کہنے سے آپ نے بکریوں کو نظرانداز کردیا مگر خدا کے حکم سے مخلوق کو کیوں نظرانداز نہیں کرتے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنی برادری کو اور مخلوق کو ناراض کیا تو اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم تمام مخلوق کی طرف سے اس بندہ کی آبرو کی حفاظت وکفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ علماء حضرات کے لیے حوالہ بھی پیش کرتا ہوں کہ مشکوٰۃ شریف میں کتاب الظلم دیکھ لیں، آپ کو اس کے اندر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ملے گی جس کو انہوں نے امیرالمؤمنین امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی درخواست پر لکھوایا تھا۔
جس نے اللہ کو ناراض کیا اور برادری کو خوش کیا، اپنا جی خوش کیا، برادری میں انسان کا نفس بھی شامل ہے یعنی کوئی اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے بدنظری کررہا ہے، عورتوں کو بُری نظر سے دیکھ رہا ہے تو اللہ کی ناراضگی میں گزرنے والی اس کی یہ گھڑی انتہائی نامبارک ہے۔ لیکن اگر تم مخلوق کو ناراض کرکے اپنے مالک کو، طاقت والے اللہ کو جو شیر کا خالق ہے راضی کرلو مثلاً شادی بیاہ سنت کے مطابق کرو، لباس سنت کے مطابق پہنو،غرض ہر چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر ڈھال لو، بجائے اس کے فرشتے قبر میں مونچھ اُکھاڑیں، یہ مونچھ پہلے ہی ختم کردو۔ یہ بتلاؤ کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھ کر ہم اپنی مونچھوں کو چھوٹی کردیں یہ زیادہ بہتر ہے یا یہ کہ قبر میں فرشتے ان مونچھوں کو اُکھاڑیں؟ تو فرشتوں سے مونچھوں اُکھڑوانے کے بجائے نبی کا حکم مان لو تو اﷲ مخلوق کے شر سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔
بیعت کی شرعی حیثیت
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بیعت کیا چیز ہے؟ کیا صحابہ نے بھی بیعت کی ہے؟ تو بخاری شریف کی روایت ہے کہ صحابہ نے بیعت کی ہے اور بیعت کرنے پر اللہ نے آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ میرے نبی کے ہاتھ پر بیعت ہورہے ہیں یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ،5؎ تو میرے نبی
_____________________________________________
5؎ الفتح:10