Deobandi Books

دار فانی میں آخرت کی تیاری

ہم نوٹ :

23 - 34
صوفیاء؟ جاہل صوفی نہ ہو، عالم ہو، اللہ کا عاشق بھی ہو اور اللہ والا بھی ہو تو ان کی برکت سے زیادہ اسلام پھیلا کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اتنا زیادہ پیش کرتے ہیں جس سے انسان سمجھتا ہے کہ یہ ہمارا مخلص ہے، یہ ہم کو صحیح راستہ بتاتا ہے۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب اجمیر شریف میں تشریف لائے تو تنہا تھے، سارا اجمیر کافروں سے بھرا ہوا تھا، یہاں تک کہ وضو کے لیے پانی مانگا تو سارے ہندوؤں نے منع کردیا کہ ہم تمہیں وضو کے لیے پانی نہیں دیں گے۔ اجمیر میں ایک مندر تھا، اس مندر میں ایک بت تھا جسے ہندو دیوتا کہتے تھے اور اس کو  پوجتے تھے،  آپ نے اس بت سے کہا کہ اے ہندوؤں کے دیوتا! تو خدا کا بندہ ہے، میں بھی خدا کا بندہ ہوں، میں اللہ کی بندگی کے لیے تجھ کو لوٹا دیتا ہوں، میرے لیے پانی لے آ۔ مفتی محمود الحسن گنگوہی دیوبند کے صدر مفتی سے میں نے اپنے کانوں سے خود سنا کہ وہ پتھر کا دیوتا لوٹا لے کر گیا اور وضو کے لیے پانی لے آیا۔ اب سارے ہندوؤں نے کہا کہ لو بھائی ہم جس کو خدا  مان رہے تھے وہ تو خود اجمیر کے اس سائیں کا غلام بنا ہوا ہے، تو وہ نوّے لاکھ ہندو مسلمان ہوگئے۔اس لیے دوستو! یہ عرض کرتا ہوں کہ صوفیاء سے دین زیادہ پھیلا ہے۔
اجمیر کا راجہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ رہا ہے کہ تم اپنا مصلیٰ اس جگہ سے اُٹھا کر لے جاؤ، تم یہاں کیوں نماز پڑھ رہے ہو، ہم تمہیں یہاں نماز نہیں پڑھنے دیں گے، یہاں تو ہمارے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ نے ہاتھ اُٹھاکر اللہ سے کہا کہ اے خدا! یہاں جتنے اونٹ بیٹھے ہیں کوئی نہ اُٹھ سکے۔ سارے اونٹ وہی زمین پر چپک کر رہ گئے۔ راجہ بھی حیران رہ گیا۔
تو دوستو! آج ہمیں اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہم وہ دردِ محبت حاصل کریں جو    اولیاء اللہ کے سینوں میں ہوتا ہے جس کو مولانا قاسم نانوتوی نے اور مولانا رشید احمد گنگوہی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہم نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا تھا۔ آج مُلّا کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ ہم کسی بزرگ کے پاس جاکر بیٹھیں، ہم بھی روح المعانی دیکھ سکتے ہیں، بخاری شریف پڑھ سکتے ہیں، دین کے مسائل جانتے ہیں پھر ہم کسی کی جوتیاں کیوں اُٹھائیں؟
Flag Counter