کیف روحانی کیسے حاصل ہو ؟ |
ہم نوٹ : |
|
ایمان کے درخت میں پانی دیتا ہے تو وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے وقوف نہیں ہے۔ تو اگر کوئی شخص درختوں کی گہری جڑیں اُکھاڑے تو جتنی گہری جڑ ہوگی اتنی ہی اس درخت سے آواز آئے گی،اتنی ہی اس درخت کو پریشانی ہوگی۔ تو ایسے ہی جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں داڑھی رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، اللہ والوں کی صحبت میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو ان لوگوں کے مقابلےمیں گناہوں سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے جو ہر وقت گناہوں میں اور غفلت میں رہتے ہیں، جو رات دن اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں کیوں کہ دونوں کے گناہوں میں فرق ہوتا ہے۔ جو لوگ اللہ اللہ نہیں کرتے، غفلت میں ہیں ان کے دل اندھیروں میں ہیں، وہ جتنا چاہے گناہ کرلیں ان کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ ذاکرگناہ گاراور غافل گناہ گار میں فرق حکیم الامت مجد دالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذاکر گناہ گارمیں اور غافل گناہ گارمیں فرق یہ ہے کہ غافل کو توبہ نصیب نہیں ہوتی اور جو خدا کو یاد کرتا ہے،اس سے جب خطا ہوتی ہے تو چوں کہ دل میں نور تھا اس لیے نور بجھنے سے پریشانی ہوئی، جیسے لائٹ جانے سے پریشانی ہوتی ہے، اب وہ پاور ہاؤس ٹیلی فون کرتا ہے کہ میں بہت پریشان ہوں، بہت گرمی ہے، فریج بھی خراب ہے، پنکھے بھی بند ہیں،ارے! جلدی سے روشنی بھیجو، میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں گا، آپ کو بہت دعائیں دوں گا۔ تو ایسے ہی جو بندہ اپنے دل میں نور رکھتا ہے اس کے گناہوں سے جب دل میں اندھیرا آتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتا ہے، وہ فوراً وائرلیس کرتا ہے یعنی آہ و نالوں سے استغفار و توبہ سے اﷲ سے رجوع کرتا ہے کہ میرے ربّا! دل میں اندھیرا آگیا جلدی سے نور بھیج دیجیے، آپ کا شرمسار بندہ تو بہ کررہا ہے، استغفار کررہا ہے اور جو دل میں بالکل نور نہیں رکھتا، اللہ کو یاد ہی نہیں کرتا، اندھیروں پر اندھیرا چڑھا رہا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے موٹر گیراج میں کام کرنے والے لڑکے کی پتلون پر روشنائی گرادو تو پتا ہی نہیں چلے گا کیوں کہ اس پر پہلے ہی تیل اور گریس کے بے شمار نشانات ہوتے ہیں۔ ایک مردے کو سو جوتے لگادو اور پھر اس کو زبان دے دو تو وہ یہی کہے گا کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں چلا۔ تو گناہوں پر احساسِ ندامت نہ ہونا کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ آپ