کیف روحانی کیسے حاصل ہو ؟ |
ہم نوٹ : |
|
گناہوں کی سزا کے طور پر اﷲ تعالیٰ اس سے انتقام لینے کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو اس کو کنویں کی تاریکی اور گندی جگہ میں بڑا مزہ آتا ہے کہ کیا عمدہ باغ لگاہوا ہے، چلو گرپڑو اس کے اندر، ابھی تو گٹر کا ڈھکن کھلا ہوا ہے لہٰذا کود پڑو اس میں ؎ گہ چوں کابوسے نماید ماہ را اور کبھی شیطان چاند جیسی شکلوں کو ڈراؤنا بھوت جیسا دِکھاتا ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ خدا کی صفتِ انتقام سے ڈر کر رہو کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے عقل مسخ ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ خود کسی کو ایسا نہیں کرتے، یہ گناہوں کا انجام ہوتا ہے، پھر کیا ہوتا ہے کہ چاند جیسی شکل ڈراؤنی اور چڑیل جیسی نظر آتی ہے اور کنویں کی گندگی اور غلاظت عمدہ اور خوشنما باغ دکھائی دیتی ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل چاند سے بھی بڑھ کر ہے لیکن ابو جہل کہتا تھا کہ دنیا میں ایسی بُری شکل میں نے کہیں نہیں دیکھی، معاذ اﷲ! اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں سورج چلتا ہوا نظر آتا ہے، ایسا نور اور ایسی چمک کہ بس کیا کہیں۔ ابوجہل سے کفر کی سزا، اس کی بغاوت کی سزا کے طور پر خدا نے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لہٰذا اللہ سے پناہ مانگو کہ ہمارے بارے میں خدا تعالیٰ کوئی ایسا فیصلہ نہ فرمادے۔ چناں چہ گناہوں سے استغفار کرنے میں دیر مت کرو، جلدی سے توبہ کرکے معافی مانگو تاکہ ہمارے گناہوں کے زہرکا ری ایکشن نہ ہو، نافرمانی کرکے چین سے مت بیٹھو، ہوسکتا ہے کہ ردِّ عمل اور ری ایکشن ہوجائے اور حق تعالیٰ سوءِ قضا نافذ فرمادیں، اس وقت تمہاری یہ حالت ہوگی کہ چاند بُری شکل کا نظر آئے گا، اللہ والے تمہیں بُرے نظر آئیں گے، اور بدمعاش لوگ بڑے اچھے معلوم ہوں گے۔ باطل سے بچنے اور راہِ حق پر چلنے کے لیے ایک مسنون دعا تو شامتِ اعمال سے نظر بدل جاتی ہے اچھی چیز بُری اور بُری چیز اچھی لگنے لگتی ہے لہٰذا سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک دعا سکھائی ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَااجْتِنَابَہٗ 6؎ _____________________________________________ 6؎تفسیر ابن کثیر،:281/1 ۔ المغنی عن حمل الا سفار للعراقی:2 /366