صحبت شیخ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
علماء کی ناقدری کی وجہ اِس زمانے میں علماء کی تعداد تو بڑھ گئی لیکن وہ روحانیت، وہ اخلاص، وہ درد بھرا دل اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کا وہ کیف کم ہوگیا جس کی مثال میں یہ دیتا ہوں کہ جیسے رس گُلّہ میں اگر رس نہ ہو تو اسے کوئی کھائے گا؟ اب میں ذرا آپ کو رس گُلّہ کی لغت بھی بتادوں، اس فقیر سے رس گُلّہ کی تحقیقِ لغت سنیے! رس گُلّہ اصل میں گولائے رس تھا اضافت کے ساتھ پھر اس اضافت کو مقلوب کیا گیا تو رس گولا بن گیا پھر اور بگڑا تو رس گُلّہ بن گیا، آپ تو جانتے ہیں کہ عوام باتوں باتوں میں ہر چیز کوبگاڑ دیتے ہیں۔ تو ایک شخص نے رس گُلّہ خریدا اور اس میں سے سارا رس نکال لیا، اب خالی گولا باقی رہ گیا، جب رس گُلّہ سے رس نکل گیا تو خالی گولا بچا، اب اگر کسی کو گولا پیش کیا جائے گا تو جو کھائے گا وہ کہے گا کہ ؎ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو ایک قطرۂ خوں بھی نہ نکلا یعنی کیا رس گُلّہ رس گُلّہ کرتے ہو اس میں تو ایک قطرہ بھی رس نہیں ہے۔ دوستو! آج یہی بات ہے کہ ہمارے اندر اس کی کمی ہوگئی، علمائے دین میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کے رس کی کمی ہوگئی، اسی لیے آج امت کہتی ہے کہ صاحب مولویوں کی بات میں کچھ مزہ نہیں ہے لیکن جب کوئی رس والا مولوی مل جائے گا پھر اتنا مزہ آئے گا کہ مت پوچھو ؎ زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہم ہی تھک گئے داستاں کہتے کہتے آپ بولتے بولتے تھک جائیں گے لیکن لوگ کہیں گے کہ اور سنائیے۔ رس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست پھولپور میں میڈیکل افسر تھے، انہوں نے بتایا کہ جب میں الٰہ آباد میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا تو میری اماں نے دو مہینے کے لیے میرے لیے بہت عمدہ خستہ بنا کردیا۔ آدمی جب اسکول جاتا ہے تو ماں باپ بےچارے خیال کرتے ہیں کہ میرا بیٹا پردیس میں ہے خستہ سے ناشتہ کرلیا کرے گا۔ لیکن طلبہ کو تو آپ