صحبت شیخ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں اﷲ کہتا ہوں تو مجھے اتنا مزہ آتا ہے جیسے میرے تمام بال شہد کے دریا ہوگئے ہوں ؎ نامِ او چوں بر زبانم می رود ہر بُنِ مُو از عسل جوئے شود جب اﷲ کا نام میری زبان سے نکلتا ہے، جب میں اﷲ کہتا ہوں تو میرے جتنے بال ہیں سب شہد کا دریا ہوجاتے ہیں اور مولانا اس سے استدلال فرماتے ہیں؎ اے دل ایں شکر خوشتر یا آں کہ شکر سازد اے دل!یہ چینی زیادہ میٹھی ہے یا چینی کا پیدا کرنے والا اور اس کا نام زیادہ میٹھا ہے جس نے مٹھاس کو پیدا کیا ہے جو خالقِ شکر ہے، خالقِ شہد ہے، خالقِ سیب و انگور ہے؟ اس لیے کہتا ہوں کہ دوستو! کچھ دن اﷲ کا نام لے کر تو دیکھو مگر گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی کرو کیوں کہ اگر عطرِ شمامہ و عنبر لگایا ہوا ہے مگر جسم سے پسینے کی بدبو بھی آرہی ہے تو عطر کی خوشبو پھیلے گی؟ زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا حدیثِ پاک کی شرح تو میں عرض کر رہا تھا کہ شیخ کے ساتھ اتنا رہنا چاہیے کہ خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ شیخ کی آہ و زاری، اشکباری، جاں نثاری مرید کو حاصل ہوجائے۔ حدیثِ پاک ہے: زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا 19؎یعنی لوگوں سے ناغہ دے کر ملا کرو، اس سے محبت میں زیادتی ہوتی ہے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اﷲ مرقدہٗ کی مثنوی کی شرح کلید مثنوی کے دفتر ششم کے حوالے سے عرض کررہا ہوں۔ اس حدیث پر ایک علمی سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ناغہ دے کر نہیں ملتے تھے، وہ تو اس حدیث پر عمل نہیں کرتے تھے کہ ناغہ دے کر ملو، وہ اور اصحابِ صفہ تو رات دن پروانے کی طرح _____________________________________________ 19؎کنزالعمال:30/9(24778)، مؤسسۃ الرسالۃ