صحبت شیخ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
اگرچہ خشکی میں ہزاروں رنگینیاں، مزیداریاں اور لطف و عیش کے سامان ہیں لیکن مچھلیوں کو خشکی سے کوئی مناسبت نہیں ہے لہٰذا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نعمت اﷲ سے غافل کردے وہ نعمت نہیں ہے عذاب ہے اور جو مصیبت اﷲ سے جوڑ دے، گڑگڑانے کی توفیق، صلوٰۃ الحاجت پڑھنے کی توفیق، اہل اﷲ سے دعا کرانے کی توفیق، اﷲ والوں کے پاس جانے کی توفیق ہوجائے،جس مصیبت سے بندہ اللہ کا بن جائے وہ مصیبت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے نعمت ہے۔ شکر پر ذکر کے تقدّم کی وجہ اسی لیے تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی سیدمحمود بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو شکر پر مقدم فرمایا ہے: فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ 21؎ تم ہم کو یاد کرو ہم تم کو یاد کریں گے ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں اس کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے کہ تم مجھ کو یاد کرو اطاعت کے ساتھ، ہم تم کو یاد کریں گے عنایت کے ساتھ۔23؎ تو حضرت تھانوی نے یہ اطاعت اور عنایت کا تفسیری لفظ بڑھادیا جس سے مطلب سمجھنا آسان ہوگیا۔اللہ تعالیٰ نے فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ کے بعد وَ اشۡکُرُوۡالِیۡ ناز ل فرمایا یعنی اپنے ذکر کو پہلے بیان فرمایا اور شکر کو بعد میں بیان فرمایا تو حضرت تھانوی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شکر کو بعد میں کیوں نازل فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذکر کا حاصل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہونا ہے، خالقِ نعمت کے ساتھ مشغول ہونا ہے اور شکر کا حاصل اﷲتعالیٰ کی مخلوق نعمتوں میں مشغول ہونا ہے، ایک شخص خالقِ نعمت کے ساتھ مشغول ہے اور ایک شخص نعمتِ مخلوق میں مشغول ہے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی لیے ذکر کو شکر پر تقدم ہے۔23؎ ذِکر خالق اور فکر مخلوق کے لیے ہے حضرت تھانوی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نام کے لیے ذکر نازل فرمایا _____________________________________________ 21؎البقرۃ:152 22؎تفسیر بیان القرآن:86/1 ، البقرۃ(152) ، ایج ایم سعید 23؎روح المعانی:19/2،البقرۃ(152)،داراحیاءالتراث،بیروت