فیضان رحمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
جو چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبلِ زار سے کہ خزاں کے دن بھی ہیں سامنے نہ لگانا دل کو بہار سے ایک مرتبہ لکھنؤ میں وائسرائے آرہا تھا، سارا لکھنؤ جھنڈیوں سے سجا ہوا خوشنما باغ بنا ہوا تھا۔ اس موقع پر حضرت خواجہ عزیز الحسن رحمۃ اﷲ علیہ نے میرے شیخ شاہ عبد الغنی سے فرمایا کہ ابھی ابھی یہ شعر موزوں ہوا ہے ؎ رنگ رلیوں پہ زمانے کی نہ جانا اے دل یہ خزاں ہے جو بہ اندازِ بہار آئی ہے حسنِ فانی کا انجام آج جو بچہ ہے کل اسے جوان ہونا ہے، پھر اس کے جوانی کے گال پچکنے والے ہیں اور کالے بال سفید ہونے والے ہیں، دانت منہ سے باہر آنے والے ہیں، مصنوعی دانت کی بہار کوئی بہار نہیں ہوتی، جیسے ایک صاحب مصنوعی دانت لگا کر سوگئے، رات کو خواب میں دیکھا کہ میں چنے چبا رہا ہوں اور چباتے چباتے سارے دانت کھا گئے، صبح ڈاکٹروں سے آپریشن کرانا پڑا، بھلا مصنوعی دانت قدرتی دانت کو کہاں پاسکتے ہیں۔ اس لیے بزرگوں نے نصیحت کی ہے کہ جس کے دانت مصنوعی ہوں وہ رات کو منہ میں لگا کر نہ سوئے، ڈبیہ میں یا کسی پیالے میں پانی ڈال کر رکھے ورنہ کہیں تم کو بھی کوئی خواب نظر نہ آجائے پھر صبح معلوم ہوا کہ دانت منہ سے پیٹ کے اندر داخل ہوگئے۔ اسی طرح جب کالے بال سفید ہوگئے تو ان کو کالا نہ کرو اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست خضاب لگا رہا تھا۔ بھورے رنگ کا خضاب لگاسکتے ہیں، کالے رنگ کا خضاب لگانا جائز نہیں ہے، بہرحال ان کا ساٹھ سال کا بڈھا دوست خضاب لگا کر جوان بن رہا تھا، اکبر الٰہ آبادی نے دیکھا تو فوراً کہا ؎ مصروف ہیں جناب یہ کس بندوبست میں اپریل کی بہار نہ ہوگی اگست میں