فیضان رحمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک مرتبہ شمس الدین تبریزی چپکے سے کہیں چلے گئے۔ مولانا رومی بے چین ہوگئے، صبح اٹھتے ہی اونٹنی پر بیٹھے اور تلاش کرتے کرتے قونیہ سے شام تک جاپہنچے، وہاں پوچھا کہ کسی نے حضرت شمس الدین تبریزی کو دیکھا ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں شام کی ایک گلی میں میں نے ان کو دیکھا ہے، فرمایا کہ ہائے اس شام کی صبح کیسی ہوگی جس شام میں میرا شمس تبریز رہتا ہے۔ یہ شیخ کی محبت کا انعام ہے کہ جلال الدین رومی مولائے روم بن گئے، ساری دنیا میں ان کا ڈنکا پٹ رہا ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ) میں بھی ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ موجود ہے، ساری دنیامیں مثنوی کا غلغلہ مچ رہا ہے، کتنے علماء نے اس کے ترجمے اور شرحیں بیان کیں۔ یہ مقبولیت مولانا رومی کو کیسے ملی، اسی کو خود فرماتے ہیں ؎ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد جلال الدین رومی کو یہ عزت کب ملی؟ جب شمس الدین تبریزی رحمۃ اﷲ علیہ کی غلامی کی۔ مولانا رومی خود فرمارہے ہیں کہ میں نے شمس الدین تبریزی کی، ایک اﷲ والے کی صحبت اور غلامی اختیار کی، ان کے ساتھ اپنی زندگی لگائی تب اﷲ نے مجھے مولائے روم بنا دیا۔ بدون صحبتِ شیخ کوئی صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا جب تل چنبیلی کے پھول کی صحبت پاکر پھر کولہو میں پیلا جائے تو اس کا نام روغنِ چنبیلی ہوتا ہے، اگر تل تکبر کی راہ سے چنبیلی کے پھولوں کے ناز نہ اُٹھائے اور کہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے پھولوں کی نیاز مندی کرنے کی، تو کتنا ہی مجاہدہ کرلے، کو لہو میں اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے وہ تلی کا تیل ہی کہلائے گا، اس کا دام نہیں بدلے گا، نام نہیں بدلے گا، کام نہیں بدلے گا، اس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ اہل اﷲ سے تعلق کے بغیر مجاہدات کررہے ہیں،نفلیں پڑھ رہے ہیں، وہ چاہے کتنے ہی حج کرلیں، کتنے ہی عمرے کرلیں لیکن اگر کسی اﷲ والے کے صحبت یافتہ نہیں ہوں گے تو ان کی قیمت میں اضافہ کوئی نہیں ہوسکتا، وہ صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتے۔ قیمت صحبت سے ہوتی ہے،تل کا تیل اگر بیس روپے کلو ہے تو روغنِ گل سو روپے کلو ملے گا۔