فیضان رحمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
جلا کے خاک نہ کردوں تو داغ نام نہیں قصائی سے بھی کہتے ہیں کہ ذرا اچھی اچھی بوٹیاں دینا، رات کو اتنی تہجد پڑھی ہے، اتنا رویا ہوں، دیکھتے نہیں ہو رات کو جاگنے سے میری آنکھیں کیسی لال ہورہی ہیں، اچھی اچھی بوٹیاں نہ دوگے تو تمہاری بوٹیوں کی خیر نہیں ہے۔دیکھا آپ نے! کیاتصوف اسی کا نام ہے؟ تصوف تو اس کا نام تھا کہ بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ جارہے تھے کہ ایک بدکار عورت نے ان کے اوپر راکھ ڈال دی۔ آپ نے فرمایا الحمد ﷲ۔ مریدوں نے کہا کہ حضور اجازت دیجیے کہ ہم اس کی پٹائی کریں، فرمایا کہ اگر انتقام لینا ہے تو میرا ساتھ چھوڑدو، تم اﷲ کے راستے کے قابل نہیں ہو، اﷲ کے راستے کے قابل وہ ہوتے ہیں جو مخلوقِ خدا کے ستانے کو برداشت کریں، ان کے لیے دعا گو رہیں۔ مریدوں نے پوچھا کہ آپ نے الحمدﷲ کیوں کہا؟ کیا یہ راکھ جو سر پر گرائی گئی اس پر الحمد ﷲکہا؟ فرمایا کہ ہاں اسی پر الحمدﷲ کہا۔ پوچھا کہ یہ کون سی نعمت ہے؟ فرمایا کہ جو سر آگ برسائے جانے کے قابل تھا اگر اﷲ نے اس پر راکھ برسادی تو میں اس پر اﷲ کا شکر کیوں نہ ادا کروں۔ لہٰذا جب کوئی بلا آئے تو یہ کہو کہ اے اﷲ! ہم تو ا س سے زیادہ بڑی بلا کے قابل تھے آپ کا احسان ہے کہ چھوٹی بلا سے آپ نے میرا پرچہ حل کردیا۔ یہ ہے تصوف، اصلی تصوف اس کا نام ہے۔ یہ نہیں کہ ذرا سی کوئی بات ہوئی اور ناشکری شروع کردی۔ قبولیتِ دعا کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں ایک صاحب روزی کے بارےمیں پریشان تھے، انہوں نے ایک سرکاری محکمے میں ٹینڈر دیا، مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے کچھ پڑھنے کو بتادیا، جب ٹینڈر نہیں ملا تو ان صاحب نے اس دن جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھی اور آکر مجھ کو دھونس بھی دے رہے ہیں کہ آپ کے وظیفے سے میرا کام نہیں بنا۔لہٰذا میں نے بھی آج اﷲ میاں کا جمعہ نہیں پڑھا، جب اﷲ میاں ہمارا کام نہیں کرتے تو میں ان کا کام کیوں کروں؟ دیکھا آپ نے! کبھی کبھی ایسے پاگلوں سے بھی پالا پڑتا ہے،حالاں کہ حدیث پاک میں ہے کہ مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یَّدْعُوْ بِدَعْوَۃٍ لَّیْسَ فِیْہَا اِثْمٌ وَّلَا قَطِیْعَۃُ رَحِمٍ اِلَّا اَعْطَاہُ اللہُ