فیضان رحمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ارے جب اسٹرکچر کمزور ہوگیا تو لاکھ ڈسٹمپر لگاتے رہو کچھ حاصل نہیں ہوگا،صحت اور تندرستی کا مدار اﷲ تعالیٰ سے تعلق پر ہے۔ کانپور میں ایک شخص نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاﷲ علیہ بہت ہی سرخ سفید اور بڑے صحت مند معلوم ہوتے ہیں، رفتار کا کیا پوچھنا ہے اور گفتار کا کیا کہنا، ذرا اپنے شیخ سے پوچھنا کہ کون سی جڑی بوٹی یا کشتہ کھاتے ہیں؟ محبت فی اللہ کا انعام خواجہ صاحب اس وقت ڈپٹی کلکٹر تھے اور اپنے شیخ کے عاشق تھے۔ حکیم الامت جب بھی کانپور تشریف لے جاتے اور جب واپس ہونے لگتے تو خواجہ صاحب ان کے تانگے کے پیچھے پیچھے ننگے پیر دوڑتے تھے، ڈپٹی کلکٹر شیخ کی محبت میں جوتا پہننا بھول جاتا تھا، تانگا آگے آگے جارہا ہے اور وہ زار و قطار روتے ہوئے بچوں کی طرح پیچھے پیچھے دوڑے جارہے ہیں کہ ہائے میرا شیخ! آج مجھ سے جدا ہورہا ہے ؎ دلربا پہلو سے اُٹھ کر اب جدا ہونے کو ہے کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے کرتے جاؤ آرزو پوری کسی ناشاد کی اک ذرا ٹھہرو کوئی تم پر فدا ہونے کو ہے تانگے پر شیخ و مرشد حکیم الامت جارہے ہیں اور خواجہ صاحب ننگے پیر دوڑتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے ہیں۔ میاں! مرنے سڑنے والی، ہگنے موتنے والی لاشوں سے دل لگانا تو سب جانتے ہیں لیکن اﷲ سے محبت کرنا اور اﷲ والوں سے محبت کرنا یہ کام کی چیز ہے، دنیا اور آخرت میں اور میدانِ محشر میں بھی یہی رشتے کام آئیں گے، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جو لوگ اﷲ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان کو عرش کا سایہ دے گا اور دنیا میں اﷲ کے لیے آپس میں محبت رکھنے والے جب ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں تو ستر ہزار فرشتے راستے بھر ان کے لیے